لکھنؤ کے رومی دروازے میں دراڑیں، مرمت کا کام شروع
Cracks in Rumi Gate of Lucknow, repair work started:یوپی کے دارالحکومت لکھنؤ کا دورہ لکھنؤ کی دستخطی عمارت یعنی رومی دروازہ (رومی دروازہ) کے بغیر نامکمل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ لکھنؤ آئے اور رومی دروازہ نہ دیکھا تو کیا دیکھا؟ یہی وجہ ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ لکھنؤ کی اس شناخت کو بچانے کے لیے مسلسل اقدامات کر رہا ہے۔ رومی دروازے کے اوپری حصے میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ اسی لیے محکمہ ٹریفک پولیس کی جانب سے یہاں سے گزرنے والی تمام گاڑیوں پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ رومی گیٹ کو دونوں اطراف سے بند کر دیا گیا ہے تاکہ اس کی مرمت کی جا سکے۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ یہ فیصلہ رومی گیٹ میں دراڑیں نظر آنے کے بعد کیا گیا ہے۔ تاہم آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا یعنی اے ایس آئی نے مرمت کا کام شروع کر دیا ہے۔ جس کا کام تقریباً 4 سے 5 ماہ میں مکمل ہونے کی امید ہے۔
لکھنؤ میں بڑی تعداد میں سیاحوں کی آمد کا موسم ہے، رومی گیٹ مکمل بند ہونے کی وجہ سے ان دنوں سیاح مایوسی کا شکار ہیں۔ یہی نہیں اب سیاح گھوڑے کی سواری اور ٹونگا کی سواری سے پوری طرح لطف اندوز نہیں ہو پا رہے ہیں کیونکہ پہلے یہ سواری بڑے امام باڑہ سے شروع ہو کر چھوٹے امام باڑہ تک جاتی تھی جو کہ درمیان میں رومی گیٹ سے گزرتی تھی۔ محکمہ آثار قدیمہ کے سپرنٹنڈنگ آرکیالوجسٹ ڈاکٹر آفتاب حسین نے بتایا کہ رومی گیٹ کے ساتھ ساتھ لکھنؤ کی کئی دیگر عمارتوں میں بھی مرمت کا کام جاری ہے، رومی گیٹ کو خستہ حالی سے بچانے کے لیے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔
رومی گیٹ 1784 میں بنایا گیا تھا۔
لکھنؤ کے مورخ ڈاکٹر روی بھٹ نے بتایا کہ رومی گیٹ اودھ کے چوتھے نواب آصف الدولہ نے 1784ء میں بنوایا تھا، اس وقت شدید قحط پڑا تھا اور لوگ فاقہ کشی کا شکار تھے،اسی وقت گیٹ کی تعمیر کا کام مکمل ہوا تھا۔ اس کی تعمیر کے لیے تقریباً دو سال لگے تھے ۔ جب کہ رومی گیٹ کو ترکش گیٹ بھی کہا جاتا ہے۔رومی گیٹ کی اونچائی 60 فٹ ہے۔انڈو اسلامک انداز کے علاوہ اس میں راجپوت انداز بھی نظر آتا ہے۔بڑے امام باڑہ سے دیکھا جائے تو یہ داخلی دروازے جیسا لگتا ہے۔ اور جب کلاک ٹاور سے دیکھا جائے تو یہ ایک ہار کی طرح لگتا ہے، یہ پرانے لکھنؤ کے بڑے اور چھوٹے امام باڑے کو جوڑتا ہے۔
بھارت ایکسپریس۔