مذہب اسلام شادی شدہ مسلمانوں کو لیو ان ریلیشن شپ کی اجازت نہیں دیتا: الہ آباد ہائی کورٹ
Allahabad High Court: الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے ‘لیو ان ریلیشن شپ’ کو لے کر اہم فیصلہ سنایا ہے۔ بنچ نے کہا ہے کہ مذہب اسلام کی پیروی کرنے والے شخص کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اس کی بیوی کے زندہ رہنے کے دوران لیو ان ریلیشن شپ میں رہے۔ بنچ نے بدھ کو کہا، “اسلامی عقیدہ کسی مسلمان مرد کو دوسری عورت کے ساتھ رہنے کی اجازت نہیں دیتا جب تک اس کی شادی قائم رہتی ہے۔ اگر دو افراد غیر شادی شدہ ہیں اور بالغ ہیں تو وہ اپنی زندگی اپنے طریقے سے گزارنے کا انتخاب کرتے ہیں۔”
جسٹس اے آر مسعودی اور جسٹس اجے کمار شریواستو کی بنچ نے یہ حکم ضلع بہرائچ کی رہنے والی درخواست گزار اسنیہا دیوی اور ایک شادی شدہ مسلمان شخص محمد شاداب خان کی درخواست کی سماعت کے دوران دیا۔ درخواست گزاروں نے اس معاملے میں درج ایف آئی آر کو منسوخ کرنے اور لیو ان ریلیشن شپ میں رہتے ہوئے تحفظ کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم عدالت نے سکیورٹی دینے سے انکار کردیا۔
درخواست گزاروں نے دعویٰ کیا کہ وہ لیو ان ریلیشن شپ میں تھے۔ لیکن لڑکی کے والدین نے شاداب خان کے خلاف اپنی بیٹی کو اغوا کرنے اور اس سے شادی پر اکسانے کے الزام میں ایف آئی آر درج کرائی۔ درخواست گزاروں نے پولیس سے تحفظ طلب کرتے ہوئے کہا کہ وہ بالغ ہیں اور سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق وہ لیو ان ریلیشن شپ میں رہنے کے لیے آزاد ہیں۔
پوچھ گچھ کے دوران بنچ کو معلوم ہوا کہ خان کی فریدہ خاتون سے سال 2020 میں شادی ہوئی تھی اور ان کی ایک بیٹی بھی ہے۔ اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے عدالت نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد پر انہیں پولیس تحفظ دینے سے انکار کر دیا۔ اس کے بجائے بنچ نے کہا کہ مذہب اسلام ایسے تعلق کی اجازت نہیں دیتا، خاص طور پر موجودہ کیس کے حالات میں۔
عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ رسم و رواج بھی قانون کے لیے برابر ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 21 ایسے رشتے کے حق کو تسلیم نہیں کرتا جو رسم و رواج اور روایات سے محدود ہو۔ ان مشاہدات کے ساتھ، عدالت نے پولیس کو ہدایت دی کہ درخواست گزار اسنیہا دیوی کو سکیورٹی کے تحت اس کے والدین کے پاس واپس کر دیا جائے۔
-بھارت ایکسپریس