علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کے مجموعی صورتحال پراکثر بحث کی جاتی ہے، معاشی،سماجی،تعلیمی ودیگ پہلوں پر اگر نظر دوڑائیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ مسلمان ہر شعبہ میں دیگر طبقوں اور قوموں سے پیچھے ہے۔ مسلم قوم کی ترقی اورمجموعی طورپر فلاح و بہبود کی دم بھرنے والی تنظیم اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس پر بحث تو کی جاتی ہے تاہم عملی طور پر کچھ نہیں کیا جاتا۔
غیروں سے کیا شکوہ،شکایت تو ان مسلم رہنماؤں سے ہے جو انتخابات کے وقت مسلم اکثریتی حلقوں میں جاکر اپنے لئے ماحول ساز کرتے ہیں اور قوم کی دہائی دے کر ایوان تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ تاہم بات جب مسلمانوں کی ترقی اور فلاح بہبود کے لئے زباں کھولنے اور قدم آگے بڑھانے کی آتی ہے تو قوت گویائی ہونے کے باوجود خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اورعملی قدم بڑھانے کے بجائے شاید قوم کی بے بسی کا تماشہ دیکھتے ہیں۔ اس فہرست میں تمام مسلم سیاسی رہنما تو نہیں معدود چند ایسے بھی ہیں جو ہر حساس معاملہ پر اپنی دور اندیشی اور معاملہ فہمی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی بساط بھر کو شش کرتے ہیں۔
تازہ معاملہ ایشا کے معروف تعلیمی ادارہ اور ملک کے باوقاراداروں میں سے ایک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کورٹ سے متعلق ہے ۔ اے ایم یو کورٹ میں مجموعی طورپر 191 ارکان ہوتے ہیں۔ ان 191 میں 10 ارکان پارلیمنٹ ہوتے ہیں۔ جس میں سے چھ ممبران لوک سبھا سے جبکہ راجیہ سبھا سے چار ارکان منتخب کئے جاتے ہیں، ان کی مدت کار تین برسوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ اراکین یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا انتخاب،یونیورسٹی کے بجٹ کو پاس کرنے سمیت دیگر کئی اہم امور میں غیر معمولی رول ادا کرتے ہیں۔
لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ خود کو سکیولر پارٹی کہنے کا دم بھرنے والی سیاسی جماعتوں کے لوک سبھا کے کسی بھی ممبر نے اے ایم یو کورٹ کے رکن کے لئے پر چہ نامزدگی داخل نہیں کی،اس کے علاوہ سال 2019 کے انتخاب میں مجموعی طورپر22 مسلم ارکان پارلیمنٹ پہنچے۔ ان 22 میں کنور دانش علی کو چھوڑ کر کسی نے بھی اے ایم یو کورٹ کے رکن بننے کے پرچہ نامزدگی داخل کرنے میں عدم دلچسپی دکھائی اور اس طرح کنور دانش علی کی پرچہ نامزدگی کے علاوہ لوک سبھا کے بقیہ پانچ ارکان پارلیمنٹ کے لئے اے ایم کورٹ میں رکن کے طور پر شمولیت کے لئے بی جے پی کو موقع فراہم کرانے میں اہم رول اداکیا ہے ۔
مان لیجے اے ایم یو کورٹ میں اگر پانچ ممبران بی جے پی کے بن جاتے ہیں تو اس کا موقع آخر کس نے دیا؟ اقلیتی ادارہ ہونے کے باوجود اگر اس کےکورٹ ارکان میں مسلم ارکا ن پارلیمنٹ کے بجائے بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ منتخب ہوتے ہیں تو کیا ان سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اس اقلیتی ادارہ سے متعلق فلاح وبہبود سے متعلق امور میں کما حقہ دلچسپی دکھا ئیں گے یا پھر وہ اپنی من مرضی کے مطابق ہی مشورہ دیں گے یاپھرعملی اقدام اٹھائیں گے،تو اس وقت ان مسلم رہنماؤں کی شکایت کس حد تک درست کہی جاسکتی ہے۔
ملک کے طول و عرض میں دیکھا جائے تو شمال مشرقی ریاست آسام کے ایک مسلم حلقہ سے منتخب ہوکر پارلیمنٹ پہنچنے والے اے آئی یو ڈی ایف کے سر براہ بد رالدین اجمل،جنوبی ہند کی ریاست تلنگانہ کے حیدر آباد سے پارلیمنٹ پہنچنے والے کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی سمیت دیگر کئی ارکان پارلیمنٹ ہیں جو وقت رہتے اس عظیم الشان ادارہ کے کورٹ کی ممبر سازی کے لئے پرچہ نامزدگی داخل کرسکتے تھے،تاہم اب اتک جو بات سامنے آئی ہے اس کے مطابق کنور دانش کے علی کے علاوہ کسی دوسرے رکن پارلیمنٹ نے اس سلسلے میں زحمت اٹھانے گریز کرتے رہے۔ آخر کب تک ہم غیروں کے ہاتھوں میں اپنی تقدیرکا فیصلہ کرواتے رہیں گے۔ دیگرپہلؤں اور معاملات میں تو کجا یہ تو خالص اقلیتی ادارہ ہے اور اس ادارہ کے کورٹ کے تعلق سے اتنی عدم دلچسپی، تو پھر کب تک ہم اپنی محرومی اورناکا می کا ماتم منائیں گے۔ ہر معاملہ میں شکوہ اور شکایت کے بجائے کیا جامع حکمت عملی اور منصوبہ سازی کی ضرروت مسلم قوم،مسلم تنظیمیوں اور مسلم دانشوران کے لئے ضروری نہیں ہے ؟۔
بھارت ایکسپریس۔