ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر۔ (فائل فوٹو)
چند روز قبل نمایاں ہوا وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا ایک ٹوئٹ کافی سرخیاں حاصل کر رہا ہے۔ ٹوئٹ میں وزیر خارجہ کا دورہ اٹلی، جی-20 وزرائے خارجہ کی میٹنگ، آئی بی ایس اے ہینڈ اوور، ہندوستان- یوروپ کانکلیو، رائے سینا ڈائیلاگ اور 33 دو طرفہ میٹنگوں کا حوالہ ملتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ عالمی سفارت کاری سے متعلق ان تمام اہم پروگراموں کو نہ صرف ایک ہفتے کے قلیل عرصے میں ایڈجسٹ کیا گیا بلکہ کامیابی کے ساتھ انعقاد بھی کرلیا گیا۔ ایسے میں ٹوئٹ کا عنوان ’ہندوستانی سفارت کاری کے لئے ایک مصروف ہفتہ‘ بھی اسی جذبات کا صحیح اظہار ہے۔
عالمی اسکیموں کی اس طویل فہرست کی کامیاب تدوین، جس کو وزیر خارجہ نے اسے اپنی ذمہ داریوں کی ہموار ادائیگی کے طور پر پیش کیا ہے۔ درحقیقت عالمی سفارت کاری کے نقطہ نظر سے ان کا پیغام بہت بڑا اور اہم ہے۔ درحقیقت ماضی میں دنیا میں جس طرح سے عالمی اداروں سے متعلق حالات بدلے ہیں، اس سے ہندوستان کی ساکھ میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ کم و بیش، ہر چھوٹے یا بڑے بحران میں، دنیا ایک امید کے ساتھ اس ابھرتے ہوئے ہندوستان کی طرف امید کی نگاہ سے دیکھتی ہے، جوعالمی سفارت کاری میں اپنے قد کو مسلسل بڑھا رہا ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گزشتہ دنوں میں خارجہ پالیسی کی فعالیت نے دنیا میں ہندوستان کا اثر بڑھایا ہے۔ جی-20 کی صدارت اس انتہائی متحرک سفارت کاری میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہونے جا رہی ہے جہاں ہندوستان کی سرپرستی میں اگلے ایک سال میں سینکڑوں بین الاقوامی اجلاس منعقد ہونے والے ہیں۔ دریں اثنا، ہندوستان نے نئی شراکت داری قائم کی ہے، وہ چاہے بین الاقوامی شمسی اتحاد ہو یا پھرانڈوپیسفک اوشین انیشیئٹیو۔ ایک طرف ہندوستان امریکہ، آسٹریلیا اورجاپان کے ساتھ کواڈ میں شراکت دار ہے، تو چین کے ساتھ بھر پورتناؤ کے باوجود شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ مغربی ممالک سمیت تمام ترقی یافتہ معیشتوں سے آج ہمارے اچھے تعلقات ہیں، لیکن یوکرین جنگ سے متعلق ان کے زیادہ دباؤ کے باوجود ہم نے اپنی دہائیوں پرانے دوست روس کی تنقید نہیں کی ہے۔ اس کے برعکس ایک سچے دوست کی طرح ہم نے روس پرمغربی پابندیوں کی مخالفت ہی کی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ روس کا سخت مخالف امریکہ بھی قومی مفاد کو مقدم رکھنے کے ہمارے عزم اوراستقامت کا قائل ہے۔ دہلی میں جی-20 ممالک کے وزرائے خارجہ کی میٹنگ کے دوران امریکی محکمہ خارجہ نے کھلے دل سے اعتراف کیا کہ ہندوستان کے پاس زبردست اخلاقی قوت اور واضح ایمانداری ہے۔ بلاشبہ ہم اپنی خوبیوں کے لئے ہم کسی صداقت کے محتاج نہیں ہیں، لیکن یہ بھی کم بڑی بات نہیں ہے کہ باقی دنیا کو کم ترسمجھنے والے امریکہ نے اپنی سفارتی تاریخ میں آج تک کسی دوسرے ملک کو اس طرح سراورآنکھوں پر نہیں بٹھایا ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف پہلے ہی باضابطہ طور پر کہہ چکے ہیں کہ ہندوستان کو روس نے جو درجہ دیا ہے، وہ درجہ اس نے دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کو نہیں دیا ہے۔ صرف باہمی دوستی ہی نہیں، روس اقوام متحدہ سے لے کرعلاقائی تنظیموں تک میں ہندوستان کے اہم کردارکا بھی مداح رہا ہے۔ روس کے مطابق ملٹی سینٹرک دنیا کی سوچ کا ایک مضبوط ستون بننے کے ساتھ ساتھ اس سوچ کو سچ کرنے کا اہم کردار بھی بن چکا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ امریکہ اور روس ہی نہیں، بلکہ دنیا کے کئی دوسرے ممالک بھی یوکرین کی جنگ کے خاتمے کے لئے ہندوستان سے امیدیں جوڑے بیٹھے ہیں۔ یعنی جو رتبہ گزشتہ صدی میں امریکہ اورروس کا ہوا کرتا تھا، آج اس جگہ پر ہندوستان کا واحد دعویٰ بلا مقابلہ نظر آتا ہے۔
درحقیقت عالمی سفارت کاری میں کسی بھی قوم کا دبدبہ اوراس کے تسلط کو قبول کرنے کا تعین اس کے معاشی، فوجی، سیاسی اور سماجی حالات کے ساتھ ہی اس ملک کی قیادت کی صلاحیتوں سے بھی طے ہوتا ہے۔ عالمی سطح پرکسی قوم کے امیج کی تشکیل سے لے کر بین الاقوامی یا دو طرفہ تعلقات کی سمت کا تعین کرنے میں سیاسی قیادت کا فیصلہ کن کردار ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے پچھلے سات آٹھ سال ہندوستان کے لئے عہد سازثابت ہوئے ہیں۔
اس دورمیں ہندوستان نے عالمی سطح پر نئی بلندیاں حاصل کی ہیں، جس میں یقیناً وزیراعظم نریندر مودی کا تبدیلی کا کرداراہم رہا ہے۔ سال 2014 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد عالمی سفارت کاری کے محاذ پرایک مثبت تبدیلی آئی ہے جس کی وجہ سے ہندوستان کا امیج مسلسل نکھرتا گیا ہے۔ ہندوستان کے اس بین الاقوامی اہمیت کے پیچھے وزیراعظم کی سفارتی سرگرمی ہے، جو انہوں نے گزشتہ سات آٹھ سالوں میں دکھائی ہے۔ وزیراعظم نریندرمودی سے زیادہ بیرون ممالک کا سفر کسی اورہندوستانی رہنما نے نہیں کیا۔ وزیراعظم بننے کے پہلے چارسالوں میں ہی نریندرمودی نے 84 ممالک کا سفرکیا۔ کورونا کے دور میں وزیراعظم کی فعالیت نے چین اور پاکستان کو پست کردیا۔ پاکستان، کشمیر میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کی شبیہ پرسوال اٹھا رہا پاکستان آج اپنے ہی اندرونی بحران کی وجہ سے غربت کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف خود اس بحران سے نکلنے کے لئے ہندوستان سے مذاکرات کی التجا کر رہے ہیں۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے وہ دنیا میں اس قدر تنہا ہو چکا ہے کہ اس کے پاس جلدی یا تاخیرہندوستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا ہے۔
ایسے میں ‘2023 ہندوستان کا سال’ بتانے والی امریکہ کی پیشین گوئی سچ ثابت ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ روس-یوکرین جنگ کے خاتمے کے لئے ہماری کوششیں اس سفرکو بہت آسان بنا سکتے ہیں۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ اگر ہم اس مشن میں کامیاب ہو گئے تواقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کے لئے ہمارا دعویٰ مزید مضبوط ہوجائے گا۔ چین کو چھوڑکرتقریباً پوری دنیا آج ’وندے ماترم‘ کا نعرہ لگا رہی ہے۔ کئی فورمزسے سننے میں آرہا ہے کہ آج دنیا کے ہرچیلنج کے حل کا راستہ صرف ہندوستان سے گزرتا ہے۔ اگردنیا واقعی ایسا مانتی ہے تو پھر ہمارے بغیر سلامتی کونسل کا کیا جواز رہ جاتا ہے؟ چین کا ویٹو یقیناً رکاوٹ بن سکتا ہے، لیکن دیکھنا یہ ہوگا کہ کورونا کے دور میں بین الاقوامی پریشانی کا سامنا کرنے کے بعد اس میں ہماری رکنیت کے دعوے کی مخالفت کرنے کی کتنی اخلاقی جرات باقی رہ جاتی ہے۔ دوسری جانب جرمنی میں ہونے والی جی-7 کانفرنس میں ہندوستان کو مہمان ملک کی حیثیت سے شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ اس کے بعد سے ہندوستان کو دنیا کے سب سے امیرترین سات ممالک کی اس تنظیم میں شامل کرنے کا بحث بھی زور پکڑ رہا ہے۔ اگرایسا ہوتا ہے تو ہندوستان کے رتنے میں اضافہ ہونا یقینی ہے۔ حالانکہ اس کے لئے تنظیم کا نام بدل کر پھر سے جی-8 کرنا ہو گا، جو روس کو باہر نکال دیئے جانے کے بعد جی-7 ہوگیا تھا۔
بہرحال، مقصد واضح ہے۔ وشو گرو بننا ہمارا ہدف ہے اورخاص بات یہ ہے کہ ہم نہ صرف اس طرف مضبوطی سے قدم بڑھا رہے ہیں بلکہ دنیا بھی ہمارے بڑھتے ہوئے قد کو قبول کر رہا ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ اس ہدف کے مقصد کی کامیابی کے لئے ہندوستانی سفارت کاری کے لئے آنے والا وقت پہلے سے کہیں زیادہ مصروف رہنے والا ہے۔