تباہ لوگ.. سڑک پر عوام.. برباد پاکستان
پاکستان نے ایک بارپھردنیا کو حیران کردیا ہے۔ اس بارتووہاں ایسا کچھ ہوا ہے، جو اس کے تقریباً ساڑھے سات دہائی کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ملک کے ایک سابق وزیراعظم کو پاکستانی رینجرس کی ایک ٹکڑی نے سرعام دن دہاڑے جس طرح گردن پکڑ کر تقریباً گھسیٹتے ہوئے عدالت کے اندر سے گرفتارکیا، سیسی مثال پاکستان تو کیا، کسی تاناشاہی میں بھی سنائی نہیں دیتی۔ ویسے پاکستان میں حکمرانوں کو پہلے عرش پرلے جانے پھر فرش پرلاکرپٹخ دینے کی پرانی روایت رہی ہے۔ اس لئے عمران خان کے ساتھ ہوئے اس ’تاریخی‘ واقعہ پردنیا حیران ضرورہوئی، لیکن آنکھوں دیکھی پر ہرکسی نے یقین کرلیا۔ مگراس کے بعد جو ہوا وہ پاکستان کے لحاظ سے واقعی غیریقینی تھا۔
پہلی بار پاکستان کے عوام اپنی ہی فوج کے خلاف سڑکوں پراترگئی۔ بے شک اس میں عمران خان کی سیاسی پارٹی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کارکنان کی بھی حصہ داری رہی، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کا عام آدمی بھی عمران خان کے پیچھے کھڑا نظرآیا۔ ملک کی اعلیٰ عدالت نے بھی فوج کی کارروائی کو غیرقانونی ٹھہراتے عمران خان کو ’آزاد‘ کرنے کا حکم سنا دیا۔ حالانکہ عمران خان کتنے دن آزاد ہوا میں سانس لے پائیں گے۔ یہ دیکھنے والی بات ہوگی کیونکہ ان کے خلاف 76 سے زیادہ معاملے درج ہیں۔ اس میں توشہ خانہ معاملے میں ان کے خلاف الزامات تقریباً طے بھی ہوچکے ہیں۔ ایسے میں ان کی کبھی بھی گرفتاری ہوسکتی ہے۔ عمران خان کی ازسرنو گرفتاری پاکستان میں نیا بحران کھڑا کرسکتی ہے۔ گزشتہ گرفتاری کے دو دنوں میں پاکستان 19 سے زیادہ اموات اوراربوں کے نقصان کا گواہ بن چکا ہے۔ دوبارہ گرفتاری سے پاکستان کے غیرمستحکم ہونے کا خطرہ مزید بڑھ جائے گا۔ اگرپاکستان کے فوجی ادارے ایک بار پھر ہنگامہ آرائی کی زد میں آئے تو فوج وہاں مارشل لا بھی لگا سکتی ہے، جو پاکستان ہی نہیں، ہندوستان سمیت سبھی پڑوسی ممالک کے لئے خطرے کی گھنٹی بن سکتا ہے۔
دہشت گردی کی فیکٹری کے نام سے بدنام ہوچکے پاکستان میں نہ صرف دہشت گرد مظالم کرتے ہیں بلکہ پاکستانی فوج بھی اس معاملے میں ان سے پیچھے نہیں ہے۔ پاکستانی فوج کا جنرل کوئی بھی رہا ہو، اس کے اقتدارکی بھوک کبھی کم نہیں ہوئی ہے۔ 1947 میں وجود میں آنے کے بعد سے پاکستان تقریباً 33 سال تک فوجی حکمرانی میں رہا۔ اس میں تین باریعنی 1958 سے 1971، 1977 سے 1988 اور1999 سے 2008 تک، ملک میں کئی دہائیوں تک ملٹری رول میں رہا ہے۔ ویسے بھی جوہری ہتھیاروں سے متعلق سیکورٹی پالیسی اوربھارت سمیت افغانستان، چین اورامریکہ سے متعلق خارجہ پالیسی میں چہرہ صرف منتخب حکومت کا ہوتا ہے، پردے کے پیچھے کمان فوج کی ہی رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک پاکستان کے 22 وزرائے اعظم میں سے کسی نے بھی آج تک اپنی مدت پوری نہیں کی ہے۔
پاکستان کی یہ تاریخ رہی ہے کہ تمام فوجی جنرل انہیں تعینات کرنے والے وزرائے اعظم کے خلاف محاذ کھولتے رہے ہیں۔ موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کے بڑے بھائی اورتین بار وزیر اعظم رہنے والے نوازشریف نے جنرل پرویزمشرف کو اپنی فوج کا سربراہ بنایا تھا، لیکن پرویزمشرف نے ہی نوازشریف کا تختہ پلٹ دیا۔ پھرسال 2016 میں نواز شریف نے جنرل قمر جاوید باجوا کو بھی تعینات کیا، لیکن باجوا مشرف سے بھی آگے نکلے۔ انہوں نے ایسی صورتحال پیدا کی کہ نوازشریف کو دوبارہ پاکستان کا وزیراعظم بننے کے حق سے محروم کردیا گیا۔ عدالت کی طرف سے سیاست پرزندگی بھر کے لئے گرہن لگا وہ الگ۔ ذوالفقارعلی بھٹو نے 1976 میں جنرل ضیاء الحق کوآرمی چیف بنا کروزیراعظم بنانے کی مثال پاکستان کی تاریخ میں کسی مثال سے کم نہیں۔ ضیاء الحق نے ایک سال کے اندر ہی پاکستان کے سب سے کرشمائی رہنما کا تختہ پلٹ کرکےعدالت کی مدد سے انہیں پھانسی پر لٹکوا دیا تھا۔ اس لحاظ سے پاکستان میں پہلی بار روایت کا پہیہ الٹا چل رہا ہے۔ عمران خان اوران کے حامی شہبازشریف کی بجائے فوج کو ہی نشانہ بنا رہے ہیں۔ فوج پرگزشتہ ماہ میں دو بار جان لیوا حملہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے عمران خان نے موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیراوران کے پیش رو جنرل قمر جاوید باجوا کو لعنت بھیجنے کی ہرممکن حدتک چلے گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جنرل باجوا کی حمایت کی وجہ سے ہی عمران خان گزشتہ الیکشن میں اکثریت نہیں کرنے کے باوجود پاکستان کے وزیراعظم بنے تھے۔
اب دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ جنرل منیر وزیراعظم شہباز شریف کے پیچھے کب تک کھڑے رہتے ہیں؟ گزشتہ دنوں کے ہنگامہ کے بعد پاکستان میں حالات قابو سے باہرہوگئے ہیں۔ شہباز شریف جیسے کمزوروزیراعظم کے باوجود پاکستان کے پاس موجودہ نظام میں غیرمستحکم مستقبل کے خطرے کو ٹالنے کا کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے۔ آج پاکستان میں سسٹم کا ہرکردارایک دوسرے کے سامنے کھڑا ہے۔ شہبازشریف کے پیچھے پاکستان کی فوج ہے جبکہ عدلیہ عمران خان کے ساتھ ہے۔ ملک کوسنبھالنے کے بجائے فی الحال تو دونوں خیمے پرانے حساب برابر کر رہے ہیں۔ اس سے لیڈران کے فوج کی لگام میں رہ کرملک چلانے کی برسوں سے چلی آرہی روایت اب تباہ ہوگئی ہے۔ اب تک یہ نظام بلا تعطل چلتا رہا کیونکہ فوج کی طاقت کے آگے سر جھکاتا تھا، لیکن وہ شبیہ اب چکنا چور ہوگئی ہے۔ اسے دوبارہ حاصل کرنے کے لئے فوج کو کافی پسینہ اور وقت خرچ کرنا ہوگا۔ اوراگرفوج یہ طاقت دکھانے میں ناکام رہتی ہے تونئے پاکستان کا عروج یقینی ہے، لیکن اس کی حالت اورسمت کیا ہوگی، اس کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔
بہت سے سوال ہیں جیسے موجودہ بدامنی پاکستان کوکس سمت میں لے جائے گی۔ عدالت سے ملی راحت کب تک عمران خان کا ساتھ نبھائے گی، کہیں کسی معاہدے کے تحت عمران خان کو بھی نوازشریف کی طرح عوامی عہدہ رکھنے کے لئے نااہل تو قرار نہیں دے دیا جائے گا؟ اگرایسا ہوتا ہے توپاکستان تحریک انصاف میں وہ دوسرا لیڈرکون ہوگا، جوعمران کی کرشمائی قیادت کو آگے لے جانے کی صلاحیت دکھائے گا، وغیرہ وغیرہ۔ ان سوالوں کا جواب ملنے میں ہفتے اورمہینے لگ سکتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ ڈوبتی ہوئی معیشت اورپڑوسی طالبان کی طرف سے دہشت گردی کے چیلنج کے درمیان پاکستان کے پاس تمام محاذوں پردیوالیہ ہونے سے بچنے کے لئے اب زیادہ وقت بھی نہیں ہے۔
پاکستان میں ابھرتے ہوئے بحران پربھارت کا ردعمل کیا ہونا چاہئے؟ تازہ ترین پیش رفت سے ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ پاکستان میں اب فوج کے لئے کوئی خوف یا عزت نہیں ہے۔ کچھ سالوں پہلے تک کوئی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عمران خان کی گرفتاری سے ضروری نہیں کہ جنرل منیرکی مشکلات بھی ختم ہوں۔ ہم پاکستان کی سیاست کو طویل عرصے سے بے سمت جاتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں، جو اس کے بھارت مخالف راگ کو مزید تیزکرے گی۔ شہباز شریف کے معاون خصوصی عطا ترارنے اس اتھل پتھل کے لئے جس طرح آرایس ایس اوربی جے پی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے، اس سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ اپنی گھریلو ناکامیوں کو عالمی اسٹیج پر ہندوستان مخالف ایجنڈے کے لئے کھاد پانی کی طرح استعمال کرنے کی عادت سے پاکستان کبھی باز نہیں آئے گا۔ ویسے تو ایسا نہیں لگتا کہ پاکستان کا یہ فوری بحران بھارت کے لئے کوئی پریشانی پیدا کرے گا، پھربھی ہمیں اس کی طرف سے کشمیر پر پرانا راگ اورایل او سی پرکوئی نئی حماقت دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے امریکہ سے مل رہے سرد ردعمل کے بعد پاکستان نے چین کے ساتھ تعلقات مزید گہرے کئے ہیں۔ نئی پریشانیوں کو کم کرنے کی امید میں وہ چین کے مزید قریب جاسکتا ہے، جو ہمارے لئے اچھی خبر نہیں ہوگی۔ حالانکہ بالکل برعکس صورت حال بھی پیدا ہوسکتی ہے، جس میں پاکستان اپنے دوستوں کی مسلسل کم ہوتی ہوئی تعداد کے درمیان پاکستان، بھارت سے تعلقات کو سدھارنے کی پینترے بازی بھی کرسکتا ہے۔ ایسے حالات میں ہندوستان کو مثبت رہ کرمحتاط ردعمل کے لئے تیاررہنا ہوگا۔