ملک کے شمالی علاقوں میں ان دنوں سیلاب کا منظر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ہماچل پردیش، اتراکھنڈ سے لے کر اتر پردیش اور راجستھان تک موسلادھار بارش کے بعد چاروں طرف صرف پانی ہی پانی نظر آرہا ہے۔ ملک کا ایک بڑا حصہ ہی نہیں، ہندوستان کی راجدھانی اور دنیا کے سب سے سمارٹ اور جدید شہروں میں سے ایک دہلی بھی قدرت کی اس تباہی سے بچ نہیں پائی ہے۔ کناروں کو ختم کررہی جمنا ندی نے دہلی والوں کی راتوں کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ دیگر علاقوں میں بھی طوفانی ندیون کی وجہ سے باندھ ٹوٹ رہے ہیں اور مکانات تاش کے پتوں کی طرح بکھرتے ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ جہاں آبادی رہتی ہے وہاں گاڑیاں پانی کے تیز بہاؤ میں بہتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ پانی تیزی سے گھروں کے اندر داخل ہورہا ہے،کثیر منزلہ عمارتوں کے کئی فلور زیر آب آگئے ہیں۔ تباہ کن سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ سے ہلاکتوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سب سے زیادہ خراب حالت پہاڑی ریاست ہماچل پردیش کی ہے جہاں 40 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ مون سون کی طوفانی بارشوں نے نہ صرف ہلاکتوں اور تباہی کے نشانات چھوڑے ہیں،بلکہ بہت سے علاقوں کو انسانی رسائی سے بھی محروم کر دیا ہے۔ جو کچھ نظر آتا ہے وہ ناقابل تصور ہے،بالکل قصے ،کہانیوں میں بتائے گئے قیامت کے دن کے جیسا۔
تباہی کے پیچھے موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات
سائنسدان اس تباہی کے پیچھے موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے اثرات کو دیکھ رہے ہیں جس کے ردعمل میں مون سون کا انداز بدل گیا ہے۔ پورے موسم میں عام طور پر بارش ہونے کے بجائے، اب خشک اور کم نمی کے طویل دورانیے ہیں، لیکن اس کے درمیان تیزی سے شدید بارشوں کے واقعات ہو رہے ہیں جو سیلاب کا باعث بنتے ہیں۔ یہ موسمیاتی تبدیلی کی واضح علامت ہے۔ بدلتی ہوئی آب و ہوا میں ہم دیکھتے ہیں کہ پہاڑی علاقے ، چاہے وہ ہمالیہ کے دامن ہوں یا مغربی گھاٹ جوخاص طور پر شدید بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ کیلئے کافی حساس ہو جاتے ہیں۔ پہاڑیاں نمی کے بہاؤ کو روکتی ہیں اور اسے اوپر اٹھاتی ہیں، جو بھاری بارش میں بدل جاتی ہے اور تباہی مچا دیتی ہے۔
زمین گرم ہورہی ہے
اس طرح کی بارش کی پیشین گوئی کرنا مشکل ہے اور اس میں بہت فرق ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ موسمیاتی تبدیلی مون سون کو مضبوط اور زیادہ بے ترتیب بنا رہا ہے، جس سے سیلاب کی فریکوینسی اور شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ساتھ ہی خطرہ بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ گرین ہاؤس گیسوں کے بڑھتے ہوئے اخراج کی وجہ سے زمین گرم ہو رہی ہے جس کی وجہ سے آنے والے وقتوں میں شدید موسمی واقعات میں بھی شدت آنے والی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایسے تباہ کن واقعات ہر سال رونما ہوں گے، لیکن جب بھی یہ ہوں گے، اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ پچھلے واقعات سے زیادہ تباہ کن ثابت ہوں گے۔
چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش کیلئے بڑا خطرہ
سال بہ سال رونما ہونے والے واقعات اس خدشے کو سچ ثابت کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، پیچھے مڑ کر دیکھیں تو سال 2022 حالیہ دنوں میں شدید موسم کا سال ثابت ہوا۔ دہلی میں قائم سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال ملک میں 365 دنوں میں سے 314 دنوں میں انتہائی موسمی واقعات پیش آئے، جس کا مطلب ہے کہ ان دنوں میں سے ہر ایک ہندوستان کے کسی نہ کسی حصے میں کم از کم ایک انتہائی شدید موسمی واقعہ پیش آیا ہے۔ ان واقعات کی وجہ سے صرف ایک سال میں 3,000 سے زیادہ اموات ہوئیں ہیں، تقریباً 2 ملین ہیکٹر (4.8 ملین ایکڑ) فصل کا رقبہ متاثر ہواہے، مویشیوں کے طور پر استعمال ہونے والے 69,000 سے زیادہ جانور ہلاک ہوئے اور تقریباً 420,000 گھر تباہ ہو گئے ہیں۔ ان سب کے درمیان اقوام متحدہ کے بین الحکومتی پینل برائے موسمیاتی تبدیلی کی گزشتہ سال کی رپورٹ نے بھی ہمارے لیے ایک مایوس کن تصویر پیش کی ہے۔ اس نے خبردار کیا ہے کہ آئندہ دو دہائیوں میں ملک کو موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کئی آفات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق 2050 تک چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش سب سے زیادہ سیلاب سے متاثرہ ریاستیں بن جائیں گی۔ اگر یہ اندازہ درست ہوتاہے تو یہ صورتحال بہت خوفناک ہوگی کیونکہ یہ دونوں ریاستیں ملک کے بالکل وسط میں واقع ہیں اور اگر تباہی یہاں تک پہنچنے والی ہے تو پھر ملک کے کناروں پر واقع ریاستوں کا کیا حال ہوگا۔ یہ سوچ کر بھی سہمنے لگتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس سے پہلے 2040 تک ملک کے ڈھائی کروڑ عوام کے سامنے سیلاب کا خطرہ پہلے سے زیادہ بڑھ چکا ہوگا۔ ان رپورٹس کی بنیاد پر بھارت میں سیلاب کے مستقبل کو سمجھا جا سکتا ہے۔
پہلی بار زمین کا اوسط درجہ حرارت 17 ڈگری تک پہنچا
نہ صرف ہندوستان بلکہ زمین کے درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے جو اثر بارشوں اور سیلاب کی صورت میں نظر آرہا ہے وہ پوری دنیا کو پریشان کر رہا ہے۔ اس وقت مشرقی ممالک اور ایشیا میں بارشوں کی وجہ سے سیلاب نے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں۔ لیکن اس کے برعکس جنوبی یورپ کے کئی ممالک کی زمین جل رہی ہے۔ وہیں ہیٹ ویو لوگوں کے لیے سرخ لکیر لے کر آئی ہے۔ اسپین، فرانس، یونان، کروشیا، ترکیہ، اٹلی جیسے سرد ممالک میں اس وقت درجہ حرارت 45 سے 48 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلی بار زمین کا اوسط درجہ حرارت 17 ڈگری تک پہنچ گیا ہے۔ اگلے چار سالوں میں یعنی 2027 تک اس اوسط درجہ حرارت میں 1.5 ڈگری کے اضافے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اگرچہ ہندوستان اور ان ممالک میں قدرتی آفات دور دراز کے واقعات کی طرح لگ سکتے ہیں لیکن ماحولیاتی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ان میں بہت زیادہ یکسانیت ہیں۔ گرم ماحول میں طوفان بن رہے ہیں، جس سے شدید بارش بار بار حقیقت بن رہی ہے۔ سائنسدانوں نے پیش گوئی کی ہے کہ آنے والی اضافی گرمی اسے مزید بدتر بنا دے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گرم ماحول میں زیادہ نمی ہوتی ہے، جس کے نتیجے میں طوفان زیادہ بارشیں پیدا کرتے ہیں جس کے مہلک نتائج ہو سکتے ہیں۔
تو کیا اس سے بچنا ممکن نہیں؟
یہ واضح ہے کہ یہ ذمہ داری صرف حکومت پر چھوڑنے سے کام نہیں چلے گا۔ حکومت اور عوام کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ درحقیقت بھارت میں سیلاب اب قدرتی آفت نہیں بلکہ انسانی آفت بنتی جا رہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ایسی بارش پہلی بار ہو رہی ہے۔ لیکن اس طرح کی تباہی پہلے ضرور کم دیکھی گئی ہے اور قدرت کو چیلنج کرنے والی ہماری سرگرمیاں اس میں بڑا کردار ادا کر رہی ہیں۔ آبادی میں دھماکہ اور گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج آگ میں گھی ڈالنے کا کام کر رہے ہیں۔ دریاؤں اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بے قابو تعمیرات، جنگلات کی اندھا دھند کٹائی، کاشتکاری کے غیر سائنسی طریقے، سب مل کر سیلاب کے مسئلے کو سنگین بنا رہے ہیں۔ اگر ہم دریاؤں کے قدرتی بہاؤ کے راستے تیار کرنے کی کوشش کریں اور اس میں کسی بھی قسم کی آباد کاری اور تعمیراتی سرگرمیاں روک دیں تو بھی اس نقصان کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ہر سال سیلاب آنے والے علاقوں کے مکینوں کے لیے حفاظتی جال تیار کیا جا سکتا ہے۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کو مختلف زونوں میں تقسیم کرنے کی مرکزی آبی کمیشن کی تجویز پر بھی عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ اس سے سیلاب تو نہیں رکے گا لیکن اس کے نقصانات پر کافی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح دوسرے قدرتی واقعات پر بھی یہی بات نافذ ہوتی ہے۔ اس کے قہر کو روکا تونہیں جا سکتا، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ اس کی تباہی کو کم کرنے کے طریقے تلاش کیے جا سکتے ہیں۔ اور اب یہ کام مشن موڈ پر کرنے کی ضرورت ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس صورتحال کو لانے کے ذمہ دار بھی ہم ہیں، اس لیے اس کا تدارک بھی ہماری ذمہ داری ہے۔
بھارت ایکسپریس۔