Bharat Express

بین الاقوامی

جنگ بندی، جو ابتدائی طور پر چار دن تک جاری رہے گی، کا اعلان کئی دنوں کی قیاس آرائیوں کے بعد بدھ کے اوائل میں کیا گیا تھا اور اس سے تشدد میں مزید پائیدار توقف کی امید پیدا ہوئی ہے۔معاہدے کے تحت حماس 240 سے زیادہ اسرائیلی یرغمالیوں میں سے کم از کم 50 کو رہا کرے گی ۔

حکام نے مقامی لوگوں سے جائے حادثہ سے دور رہنے کی اپیل کی ہے۔ ٹرین کا انتظام کرنے والی کمپنی CSX نے کہا ہے کہ وہ مقامی حکام کے ساتھ مل کر حالات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہی ہے۔

حماس کے پولیٹیکل بیورو کے رکن موسیٰ ابو مرزوق نے کہا تھا کہ جنگ بندی صبح 10 بجے شروع ہونے کی توقع ہے جبکہ ثالث کا کردار ادا کرنے والے ملک قطر نے توقع ظاہر کی تھی کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر جھڑپوں میں وقفے کے آغاز کا اعلان 24 گھنٹوں میں کر دیا جائے گا۔

Geert Wilders نیدرلینڈ میں پارٹی فار فریڈم کے رہنما ہیں، جن کی شبیہ اسلام مخالف ہے۔ وہ کئی بار کہہ چکے ہیں کہ نیدرلینڈ میں مساجد اور قرآن پر پابندی لگنی چاہیے۔ انہوں نے نوپور دکشٹ کے پیغمبر اسلام سے متعلق بیان کی حمایت کی تھی۔

Israel Hamas War Ceasefire Deal: اسرائیل-حماس کے درمیان ہونے والے سیز فائر معاہدے کو ایک دن کے لئے ملتوی کردیا گیا ہے۔ اس سے متعلق اسرائیلی فوج نے وجہ بھی بتائی ہے۔

العریان نے کہا کہ، "7 اکتوبر سے پہلے، کسی نے ان فلسطینیوں کے بارے میں کوئی بات نہیں کی، جو اسرائیل کے ظلم کا شکار ہیں اور ان کی آزادی سے انکاری ہیں۔"

امریکہ کی نوجوان نسل فلسطینیوں کے جذبہ ایمانی اور قوت استقامت کو سمجھنے کیلئے قرآن مقدس کا مطالعہ تیز کردیا ہے ۔ ان سے میں سے بہت سے نوجوان گزشتہ چند سالوں میں دائرے اسلام میں داخل ہوچکے ہیں ۔ البتہ حماس اسرائیل جنگ کی وجہ سے ایک بار پھر نوجوان امریکہ قرآن پاک کے مطالعے کی طرف  تیزی سے بڑھنے لگی ہے۔

شمالی کوریا مستقبل میں اس طرح کے مزید جاسوس سیٹلائٹ لانچ کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ شمالی کوریا کے اس قدم سے جنوبی کوریا، جاپان اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

پوپ نے کہا کہ انہوں نے براہ راست سنا ہے کہ تنازعہ میں "دونوں فریق کس طرح کا شکار ہیں۔جنگیں یہی کرتی ہیں۔ لیکن یہاں ہم جنگوں سے آگے نکل چکے ہیں۔ یہ جنگ نہیں ہے۔ یہ دہشت گردی ہے۔انہوں نے لوگوں کو دعاؤں کے لیے کہا تاکہ دونوں فریق "جذباتی اندازمیں مزید آگے نہ بڑھیں، جس کا نتیجہ ہلاکت اور موت ہے۔

حکومت کے اس فیصلے کے بعد کینیڈین شہریوں کے لیے ہر قسم کی ویزا سروسز شروع ہو گئی ہیں۔ اس میں سیاحتی ویزے بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انٹری ویزا، بزنس ویزا، میڈیکل ویزا اور کانفرنس ویزا بھی شروع کر دیا گیا ہے۔