Bharat Express

Iran: فساد برپا کرنے کے جرم میں پہلے شخص کو  ایران  میں پھانسی دی گئی

ناروے میں قائم ایران ہیومن رائٹس نامی تنظیم کے ڈائریکٹر محمد امیر ی مقدم نے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ جب ایک ایران حکام کو بین الاقوامی سطح پر قوری نتائج کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ’ایران میں حکومت مخالف مظاہرین کو روزانہ کی بنیاد پر پھانسی چڑھانے کا سلسہ شروع ہوجائے گا۔

iran

-Iran:محسن شکاری(Mohsen Shekari) پر الزام تھا کہ وہ فسادی ہیں جنہوں نے ستمبر میں تہران کی ایک مرکزی سڑک پر رکاوٹ پیدا کی اور نیم فوجی دستوں کے ایک اہلکار کو خنجر مار کر زخمی کردیا

محسن شکاری کی سزائے موت کے حوالے سے انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن کا کہنا تھا کہ محسن کے خلا ف عدالتی کارروائی محض دکھاوا تھا اور اس میں کوئی قانونی تقاضے  پورے نہیں کئے گئے۔

ناروے میں قائم ایران ہیومن رائٹس نامی تنظیم کے ڈائریکٹر محمد امیر ی مقدم نے ایک ٹویٹ میں لکھا ہے کہ جب ایک ایران حکام کو بین الاقوامی سطح پر قوری نتائج کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ’ایران میں حکومت مخالف مظاہرین کو روزانہ کی بنیاد پر پھانسی چڑھانے کا سلسہ شروع ہوجائے گا۔

عدلیہ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ محسن شکاری قتل کے ارادے سے ہتھیار سے وار کرنے، دہشت پھیلانے اور معاشرے کے نظم و نسق کو بگاڑنے کا مجرم پایا گیا۔

عدالت نے محسن شکاری کو ایران کے اسلامی شرعی قانون کے تحت ’محاریبہ یا خدا کے خلاف جنگ‘ کا مجرم قرار دیاہے۔

محسن شکاری نے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی لیکن ایران کی سپریم کورٹ نے 20 نومبر کو اپنے فیصلے کو برقرار رکھا۔

بیرون ملک مقیم انسانی حقوق کے کارکنوں نے عدلیہ کی کارروائی کی مذمت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ محسن شکاری کو بغیر کسی مناسب کارروائی کے ایک نمائشی عدالتی کارروائی میں موت کی سزا سنائی گئی۔

تہران میں اخلاقی پولیس نے تین ماہ قبل حجاب پہننے کےڈریس کوڈ کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں ایک 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کو گرفتار کیا تھا،جن پر حراست کے دوران مبینہ طور پر سخت تشدد کیا گیا اور طبی حالت خراب ہونے پر اسپتال لے جایا گیا جہاں ان کی موت واقع ہو گئی۔

ان کی ہلاکت کے خلاف دو ماہ سے زیادہ مدت گزر جانے کے بعد بھی مظاہرے جاری ہیں اور پولیس کی پر تشدد کارروائیوں میں سینکڑوں افراد ہلاک اور زخمی ہو چکے ہیں۔

بدھ کو ایران کی انسانی حقوق کی تنظیم کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، اس کی سیکیورٹی فورسز کی پکڑ دھکڑ کی کارروائیوں میں 63 بچوں سمیت کم از کم 458 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

کریک ڈاؤن پر بڑے پیمانے پر بین الاقوامی تنقید ہوئی ہے۔ جس میں ایرانی حکام نے ماہرین تعلیم، صحافی اور وکلاء سمیت ہزاروں افراد کو گرفتار کیا ہے۔

لندن میں مقیم انسانی حقوق کے ایک گروپ نے کہا کہ ایران میں ملک گیر احتجاج کے الزام میں گرفتار کم از کم 28 افراد کو، جن میں تین بچے بھی شامل ہیں، سزائے موت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

گروپ نے 2 دسمبر کو جاری کردہ ایک بیان میں ایرانی حکام پر الزام لگایا کہ وہ عوام میں خوف پیدا کرنے اور عوامی بغاوت کو کچلنے کے لیے سزائے موت کو سیاسی جبر کے ایک آلے کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے 24 نومبر کو ایرانی کریک ڈاؤن کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کرانے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

-بھارت ایکسپریس