یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں نے بائیں بازو کو قریب قریب پوری طرح سے صاف کر دیا ہے، انتخابات میں سینٹر رائٹ جماعتوں کو بھی بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔یورپ کی سیاست نئی اور خطرناک سمت اختیار کرگئی ہے، 720 رکنی یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات کے ڈرامائی نتائج سامنے آئے ہیں۔یورپی یونین کے 27 رکن ممالک میں ہوئے انتخابات کے ایگزٹ پولز کے مطابق جرمنی اور فرانس سمیت زیادہ تر رکن ممالک میں انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے امیدار کامیاب ہوئے ہیں اور روایتی سیاسی اسٹیبلشمنٹ کا صفایا ہوگیا ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق اتوار کو ہونے والے انتخابات میں یورپ کی انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں فرانس، اٹلی، آسٹریا سمیت کئی مقامات پر فاتح رہیں جبکہ جرمنی کی اے ایف ڈی دوسرے نمبر پر رہی لیکن تب بھی اے ایف ڈی جرمن چانسلر اولاف شولز کی ایس پی ڈی پارٹی سے آگے رہی، اس کے علاوہ سخت دائیں بازو کی جماعتوں نے نیدرلینڈز میں بھی اچھی کارکردگی دکھائی۔لیکن ماہرین نے ان کی کامیابی پر زیادہ انحصار کرنے سے خبردار کردیا ہے۔بریگل تھنک ٹینک کے وزٹنگ فیلو فرانسسکو نکولی نے کہا کہ دائیں بازو نے اچھی کارکردگی دکھائی لیکن یہ شاندار نہیں تھی، یہ نہ بھولیں کہ یہ دوسرے آرڈر کے انتخابات ہیں۔
جیکس ڈیلورس تھنک ٹینک کی وائس چیئر کرسٹین ورجر نے بتایا کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ ایک بہت ہی بڑا دھچکا ہے، سیاسی گروہوں کے اندر تبدیلیاں ہوسکتی ہیں، ہم نہیں جانتے کہ کچھ ارکان یورپی پارلیمنٹ (ایم ای پیز) کہاں جائیں گے، ایک بڑا سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا پارلیمنٹ میں انتہائی دائیں بازو کے دو اہم گروپس، آئیڈینٹیٹی اینڈ ڈیموکریسی (آئی ڈی) اور یورپی کنزرویٹو اینڈ ریفارمسٹ (ای سی آر)، متحد ہو کر ایک سپر گروپ بنا سکتے ہیں یا نہیں؟انہوں نے کہا کہ میں قطعی طور پر اتحاد کا تصور نہیں کرسکتی، آئی ڈی اور ای سی آر کا ضم ہونا سوال سے باہر ہے۔
ای سی آر میں اطالوی انتہائی دائیں بازو کی وزیر اعظم جارجیا میلونی شامل ہیں، جن کی برادران آف اٹلی پارٹی انتخابات میں سرفہرست رہی۔یورپی یونین کے انتخابات فرانس میں ایک بڑے زلزلے کا باعث سمجھا جا رہا ہے۔ لیکن ایک تاثر یہ بھی ہے کہ فرانس کا یہ سیاسی زلزلہ برسلز میں کسی عدم توازن کا سبب نہیں بن سکے گا۔اب تک سامنے آنے والے انتخابی اعداد وشمار کے مطابق مجموعی طور پر دائیں بازو کی قوم پرست جماعتوں کو کامیابی مل رہی ہے۔ اس کے نتیجے میں جن دو رہنماؤں کو زیادہ شدید جھٹکا لگا ہے ان میں جرمن چانسلر اولف شولز اور فرانس کے صدر ایمانویل میکروں نمایاں ہیں۔ صدر میکروں نے تو معاملے کو خطرہ مانتے ہوئے اسمبلی بھی تحلیل کر قانون ساز اسمبلی کے نئےانتخابات کی تاریخ 30 جون مقرر کر دی ہے۔
بتادیں کہ یورپی پارلیمان کے انتخابات میں کل 360 ملین ووٹروں کو یورپی پارلیمنٹ کے لیے 720 ارکان کا انتخاب کرنا تھا۔ فرانس میں، اردن بارڈیلا کی قیادت میں نیشنل ریلی پارٹی جو اب نیشنل فرنٹ کہلاتی ہے جو 31.5 فیصد سے زیادہ ووٹوں کے ساتھ آگے ہے۔ پولنگ سے متعلق اداروں کے اندازوں کے مطابق، صدر میکروں کی قیادت میں جماعت کےمقابل دائیں بازو کی جماعت میکروں کی پارٹی سے پندرہ اعشاریہ دو فیصد ووٹوں سے آگے ہے۔ اس طرح نیشنل فرنٹ پارٹی یورپی پارلیمنٹ کی 81 میں سے 31 نشستیں حاصل کرسکے گی۔
بھارت ایکسپریس۔