دنیا میں پہلی بار ڈیتھ کیپسول کا ہونے جارہا ہےاستعمال
آج کل جہاں بھی نظر دوڑائیں بوڑھے سے لے کر نوجوان تک لوگ خودکشی کو گلے لگا رہے ہیں۔ کچھ اپنی زندگی کے مسائل کی وجہ سے یہ کام کر رہے ہیں اور کچھ دوسروں سے ناراض ہونے کی وجہ سے کر رہے ہیں۔ اس طرح پوری دنیا میں خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
دنیا کے تمام ممالک میں خود کشی پر پابندی ہے اورہندوستان میں خودکشی کو جرم کے زمرے میں رکھا گیا ہے لیکن دنیا میں ایک ایسا ملک بھی ہے جہاں لوگ اپنی مرضی سے موت کو گلے لگاتے ہیں۔ تاہم اس کی وجہ سے اس ملک کو شدید مخالفت کا بھی سامنا ہے۔
اس ملک میں آپ اپنی مرضی کے مطابق خودکشی کر سکتے ہیں۔
سوئٹزرلینڈ دنیا کا واحد ملک ہے جہاں لوگ اپنی مرضی سے ‘ خودکشی’ کر سکتے ہیں۔ یہی نہیں، بغیر کسی تکلیف کے مرنے کے لیے یہاں ڈیتھ کیپسول بھی تیار کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے سوئس میڈیا کی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ ڈیتھ کیپسول پہلی بار استعمال ہونے جا رہا ہے۔ لہٰذا یہاں یہ شرط بھی رکھی گئی ہے کہ جو شخص مرنا چاہے اس کے لیے وہ کسی قسم کی سنگین بیماری میں مبتلا نہ ہو۔
اس کیپسول کو بھی مخالفت کا سامنا ہے۔
آپ کو بتاتے چلیں کہ ڈیتھ کیپسول کو بھی کافی مخالفت کا سامنا ہے۔ کیئ کے ڈائریکٹر جیمز ملڈریڈ کے مطابق ڈاکٹر فلپ کی ڈیوائس کو بہت سے لوگوں نے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ خودکشی ایک المیہ ہے جسے اچھے معاشرے ہر حال میں روکنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن انسانوں کی مدد کرنے کے اخلاقی طریقے ہیں جن میں زندگی کی تباہی شامل نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پرو لائف گروپس نے بھی اس بارے میں خبردار کیا ہے اور کہا ہے کہ تھری ڈی پرنٹرز کا استعمال کرتے ہوئے بنائے گئے پوڈز خودکشی کا باعث بنتے ہیں۔
اس کمپنی نے موت کا کیپسول بنایا
ایگزٹ سوئٹزرلینڈ نامی کمپنی نے ڈیتھ کیپسول تیار کیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس میں بیٹھنے کے چند ہی سیکنڈ میں کوئی شخص مر جائے گا۔ ڈیتھ کیپسول ڈاکٹر فلپ نِٹسکے نے بنایا تھا۔ ڈیلی میل سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے ڈیتھ کیپسول کے بارے میں بتایا کہ یہ کیپسول ان لوگوں کی مدد کرے گا جو بغیر کسی تکلیف کے مرنا چاہتے ہیں یا خودکشی کرنا چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر فلپ بتاتے ہیں کہ جب کوئی شخص سارکو جاتا ہے تو اس کی آکسیجن لیول 21 فیصد ہو جاتی ہے لیکن بٹن دبانے کے بعد آکسیجن کو ایک فیصد سے کم ہونے میں 30 سیکنڈ لگتے ہیں۔
جانتے ہیں کہ یہ کیسے کام کرتا ہے؟
ڈاکٹر فلپ نے میڈیا کو بتایا کہ جو بھی اس مشین پر سوار ہوگا اس سے تین سوال پوچھے جائیں گے۔ پہلے آپ کون ہیں؟ دوسرا، آپ کہاں ہیں؟’ پھر تیسرا سوال ہوگا – کیا آپ جانتے ہیں کہ اگر آپ بٹن دبائیں گے تو کیا ہوگا؟ اس کے بعد اس شخص کو بول کر جواب دینا ہوگا، جیسے ہی جواب دیا جائے گا، کیپسول میں موجود سافٹ ویئر پاور آن کر دیتا ہے، جس کے بعد اس میں نصب بٹن ایکٹو ہو جاتا ہے اور بٹن دباتے ہی اس مشین کے اندر بیٹھنے والا مر جائے گا۔
جولائی میں استعمال کیا جائے گا۔
ایگزٹ سوئٹزرلینڈ کی ویب سائٹ پر کیپسول کی تصویر کے نیچے لکھا ہے کہ جلد آرہا ہے۔ اس کے ساتھ سوئس نیوز آؤٹ لیٹ این زیڈ زیڈ نے دعویٰ کیا ہے کہ جولائی میں سارکو کے براہ راست استعمال کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ اس شخص کی بھی تلاش کی جا رہی ہے جو یوتھنیشیا چاہتا ہے اور اس نے ملک کا سفر کیا ہے۔