احمد فراز
نئی دہلی: ’اب کہ ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں‘ جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں’، یہ شعر پڑھتے ہی اردو کے عظیم شاعر اور ادیب احمد فراز کا نام ذہن میں آتا ہے۔ ایک ایسا شاعر جو صاحب اقتدار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا تھا۔ فراز کی شاعری اور بے باکی نے انہیں ایک الگ مقام پر پہنچایا۔
لیکن اگر احمد فراز شاعر نہ ہوتے تو کیا محبت بھری شاعری اور بے مثال غزلیں سننے کو مل پاتے؟ جواب شاید نہیں ہے۔ کیونکہ، ان کی شاعری نے کئی ٹوٹے ہوئے دلوں پر مرہم لگایا توکئی کو پرانے پیار کی یاد دلائی۔
حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ جس کی شاعری لاجواب تھی، جس کی نظموں اور غزلوں نے ٹوٹے دلوں کو روئی کی جھاڑیوں سے بھرنے کا کام کیا، وہیں ہردل عزیز شاعر کبھی پائلٹ بننا چاہتا تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو عاشقوں کو یقیناً بہت بڑا نقصان ہوتا۔
اتوار کے روز اردو کے مشہور شاعر احمد فراز کی 16ویں برسی ہے۔ احمد فراز کی شاعری اور غزل جو بھی سنتا ہے وہ ان کی تحریر کا دیوانہ ہو جاتا ہے۔ ان کے قلم میں ایسا جادو تھا کہ ان کی وفات کے بعد بھی ان کی لکھی ہوئی نظمیں اور غزلیں محفلوں کو رونق بخشتی ہیں۔
عظیم شاعر احمد فراز، 12 جنوری 1931 کو پیدا ہوئے، ان کی تعلیم پاکستان کے پشاور میں ہوئی۔ فراز اپنے زمانے کا واحد شاعر تھے جن کے قلم سے جتنی محبت نکلتی تھی، اتنا ہی جنون بھی جھلکتا تھا۔ وہ کاغذ پر اپنے قلم کا جادو اس طرح دکھاتے تھے کہ سننے اور پڑھنے والا متاثر ہو جاتا تھا۔
’سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں، سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں، فراز کے اس شعر میں محبت صاف نظر آتی ہے۔ فراز اپنی تخلیقات میں جس طرح محبت کا اظہار کرتے ہیں شاید کسی دور کے کسی شاعر نے دل کے اس جذبے کا اتنی خوبصورتی سے اظہار نہیں کیا۔
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
عاشقی میں میرؔ جیسے خواب مت دیکھا کرو
باؤلے ہو جاؤ گے مہتاب مت دیکھا کرو
فراز کی ان نظموں میں درد اور محبت دونوں میں نظر آتا ہے۔
فراز احمد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں بچپن میں ہی پائلٹ بننے کا شوق تھا۔ اس خواہش کا اظہار انہوں نے ایک انٹرویو میں کیا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ وہ بچپن میں ہی پائلٹ بننے کا شوق رکھتے تھے لیکن ان کی والدہ نے اجازت نہیں دی۔ فراز کا پائلٹ بننے کا خواب پورا نہ ہوسکا، لیکن انہوں نے پشاور یونیورسٹی میں فارسی اور اردو کی تعلیم حاصل کی۔ یہیں سے ان کی شاعری میں دلچسپی بڑھی۔
فراز اپنے دوست اور آئیڈیل فیض احمد فیض کے کاموں سے بہت متاثر تھے۔ وہ علی سردار جعفری اور میر تقی میر جیسے شاعروں سے بھی متاثر تھے۔ محبت کے علاوہ انہوں نے انقلابی شاعری بھی لکھی جس کا خمیازہ انہیں ملک چھوڑ کر بھگتنا پڑا۔ ’یہ رسولوں کی کتابیں طاق پر رکھ دو فراز، نفرتوں کے یہ صحیفے عمر بھر دیکھے گا‘، ان کی لکھی ہوئی اس شاعری کی وجہ سے انہیں چھ سال کینیڈا اور یورپ میں رہنا پڑا۔ یہی نہیں انہوں نے ضیاء الحق کے دور میں کچھ ایسی غزلیں لکھیں جس کی وجہ سے انہیں جیل بھی جانا پڑا۔
احمد فراز کو کئی قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ ان میں ناگر ایوارڈز، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز شامل ہیں۔ احمد فراز محبت کے شاعر تھے لیکن ان کی حب الوطنی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ 2004 میں حکومت پاکستان نے انہیں ہلال امتیاز کا ایوارڈ دیا لیکن انہوں نے حکومت کی پالیسیوں سے ناخوش ہو کر دو سال بعد اسے واپس کر دیا۔
احمد فراز 25 اگست 2008 کو دنیا کو الوداع کہہ گئے۔ ان کی کئی غزلیں اور نظمیں بھی شائع ہوئیں جن میں خانہ بدوش، اے زندگی، درد آشوب اور یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں شامل ہیں۔
فراز کو 20ویں صدی میں جو پیار ملا اسے 21ویں صدی نے مزید پنکھ دینے کا کام کیا۔ ریلوں کی اس دنیا نے احمد فراز کو دوبارہ زندہ کر دیا۔ آج کے دور میں ان کا شمار اردو کے عظیم شاعروں میں ہوتا ہے۔
بھارت ایکسپریس۔