شمال مشرق ریاستوں میں شاندار کامیابی کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی کا استقبال کرتے ہوئے بی جے پی صدر جے پی نڈا اور وزیر داخلہ امت شاہ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)
2023 کا پہلا الیکشن شمال مرق کی ریاستوں تری پورہ، ناگالینڈ اور میگھالیہ میں ہوئے، جس میں نتائج کی امید کے مطابق ہی آئے۔ بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتوں کو ناگالینڈ اور تری پورہ میں اکثریت ملی جبکہ میگھالیہ میں وہ پرانے اتحادی این پی پی کے ساتھ مل کر حکومت بنائے گی، یہ طے ہے۔ تاہم اس الیکشن میں سب سے زیادہ نقصان کانگریس کا ہوا۔ ایک وقت شمال مشرقی ریاستوں میں راج کرنے والی کانگریس اس بار بری طرح ناکام ہوگئی۔ وہیں کچھ سال پہلے تک جس شمال مشرق میں بی جے پی کا نام ونشان نہیں تھا، وہاں اب اس کا ڈنکا بج رہا ہے۔ آج شمال مشرق کی 8 ریاستوں میں سے 7 میں بی جے پی حکومت میں ہے۔
بی جے پی کی جیت کو واضح طور پر وزیراعظم نریندر مودی کی ایکٹ ایسٹ پالیسی پرمہر کہا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم مودی نے جس طرح شمال مشرق کی ترقی پر توجہ دی۔ عوام نے بھی کھلے دن سے اس کا ریوارڈ دیا ہے۔ ایک بات اور جو بی جے پی کے حق میں گئی وہ یہ ہے کہ وزیراعظم مودی نے الگ تھلگ رہے شمال مشرق کو دہلی کے قریب لانے کے لئے ٹھوس قدم اٹھائے۔ جیت کے بعد بھی وزیراعظم مودی نے کہا کہ شمال مشرق اب دہلی اور دل سے دور نہیں ہے۔ انتخابی تشہیر کے دوران وزیراعظم مودی کے عوامی جلسوں اور روڈ شو میں جس طرح سے بھیڑ امنڈی وہ ان کی مقبولیت ہی ثابت کرتی ہے۔ اپوزیشن بی جے پی پر یہ الزام ضرور لگاتی رہی ہے کہ وہ توڑ پھوڑ کرکے اور مرکزی ایجنسیون کے دم پر حکومت بناتی ہے، لیکن حقیقت میں وزیراعظم مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کی قیادت میں بی جے پی نے شمال مشرق کی ریاستوں میں زمینی سطح پر بہت محنت کی ہے۔ شمال مشرق کے لوگ اس کے ساتھ جڑے رہے ہیں۔ عیسائی اکثریتی میگھالیہ اور ناگالینڈ جیسی ریاستوں میں بھی اپنی کارکردگی سے بی جے پی نے ثابت کردیا ہے کہ وہ صرف ہندو اور ہندی زبان والے لوگوں کی پارٹی نہیں ہے بلکہ اب پورے ملک میں اس کی موجودگی ہے اور مقبولیت بھی۔ ایک بڑا پیغام اس بات کا بھی ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی کی قیادت والی نئی بی جے پی بارہ ماہ الیکشن موڈ میں ہی نہیں رہتی ہے بلکہ الیکشن جیتنے والی پالیسی بنانے میں بھی ماہرہوچکی ہے۔ اتراکھنڈ اور گجرات کے بعد تری پورہ میں وزیراعلیٰ بدلنے کا فیصلہ ایک بار پھر ماسٹراسٹروک ثابت ہوا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ شمال مشرق میں اب بی جے پی نے وہی رتبہ حاصل کرلیا ہے، جو کبھی کانگریس کا ہوا کرتا تھا۔
ملک کی دوسرے ریاستوں کی طرح ہی کانگریس کو ان الیکشن میں سب سے زیادہ نقصان ہوا۔ تری پورہ میں لیفٹ سے اتحاد کرنے کے بعد کانگریس کو دو سیٹوں کی سبقت ضرور ملی ہے، لیکن ناگالینڈ میں کانگریس ایک بھی سیٹ نہیں جیت پائی، جبکہ میگھالیہ میں 21 سے پانچ سیٹوں پر آکر پارٹی سمٹ گئی۔ یعنی یہاں کانگریس کو 16 سیٹوں کا نقصان اٹھانا پڑا۔
پھر کانگریس سمیت پورے اپوزیشن کے لئے ان نتائج کے کیا سابق ہیں؟ کانگریس 2024 سے پہلے خود کو اپوزیشن اتحاد کے محور کے طور پر قائم کرنے کی کوشش کررہی ہے، لیکن تری پورہ اور میگھالیہ میں ٹپرا موتھا اور ترنمول کانگریس جیسی علاقائی جماعتوں سے ملا چیلنج کانگریس کی اس دعویداری کو چیلنج دے رہی ہے۔ ترنمول کانگریس تو دونوں ریاستوں میں کانگریس میں زبردست سیندھ لگانے کے بعد ہی انتخابی میدان میں اتری تھی۔ بے شک ایک بڑا سیاسی طبقہ ابھی بھی مانتا ہے کہ قومی سطح پر کانگریس کو ساتھ لائے بغیر بی جے پی کو ٹکر نہیں دیا جاسکتا ہے، لیکن حالات تیزی سے ایسے بنتے جا رہے ہیں جب کانگریس سیاسی طور پر ‘اچھوت’ بنتی جا رہی ہے۔ ایک طرف بی جے پی ملک کے سیاسی غوروخوض کو کانگریس مکت بنانے پر آمادہ ہے تو دوسری طرف قومی سطح پر پرانا دبدبہ ہی ریاستوں میں کانگریس کے لئے سردرد بنا ہوا ہے۔
دراصل، ہندوستان میں علاقائی جماعتوں کی اپنی اپنی ریاستوں میں اچھی خاصی مقبولیت ہے۔ خاص طور پر جنوبی ریاستوں اور مشرقی ہندوستان میں۔ سال 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں جب پورے ملک میں وزیراعظم مودی کا نام گونج رہا تھا، تب بھی آندھرا پردیش کی سبھی 25 سیٹیں علاقائی جماعتوں کے پاس گئیں۔ تمل ناڈو میں بھی ڈی ایم کے 39 میں سے 37 سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی تھی۔ مغربی بنگال میں بھی کم وبیش اسی طرح کی صورتحال ہیں۔ دوسری طرف اترپردیش اور بہار جیسی ریاستیں ہیں، جہاں کانگریس اب سنگل نمبر پرسمٹ گئی ہے۔ ظاہر ہے ان ریاستوں میں کوئی بھی سیاسی جماعت اتحاد بناکر اپنی مرضی سے اپنی پکڑ ڈھیلی کرنا نہیں چاہے گا۔ قومی سطح پر بھی علاقائی جماعتوں کے اتھاد کی مٹھی الیکشن کے بعد ہی کھلتی ہے۔ الیکشن کے بعد اتحاد سے متعلق بھی علاقائی جماعتیں اپنی ریاست، پارٹی اور ذاتی مفاد کے پیش نظرلچیلا رخ اپناتی ہیں اور اکثر ایسے اتحاد میں سیاسی نظریہ کو کوئی خاص رول نہیں رہتا۔ ہندوستانی سیاست میں جو جیتا وہی سکندر کہلاتا ہے۔ اتحادیوں سے متعلق بی جے پی کی حکمت عملی جہاں کامیابی کی مثال ہے وہیں اس معاملے میں کانگریس کی تاریخ بے حد خراب ہے۔ اس لئے سیاسی نظریے میں مساوات تلاش کرنے کی قواع سے کچھ خاصل ہونے والا نہیں ہے۔
ایسے میں اتحاد کی سیاست پریقینی طور پر ہی اس سال ہو رہے اسمبلی الیکشن کا بھی اثر رہے گا۔ ان الیکشن میں کانگریس اور بی جے پی چار ریاستوں میں آمنے سامنے ہوں گی۔ کرناٹک، راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ۔ یہاں کے نتائج سے کانگریس کی سودے بازی کی طاقت طے ہوگی۔ اگر کانگریس ان ریاستوں میں جیت نہیں پاتی ہے تو اسے کم از کم بی جے پی کو سخت ٹکر ضرور دینی ہوگی کیونکہ اگر وہ ایسا بھی نہیں کرپائی تو ‘مساوی نظریہ والے’ دوست بھی کانگریس کو اتحاد کی قیادت کے کردار میں قبول نہیں کریں گے۔ فی الحال تو حالت یہ ہے کہ علاقئی اور مبینہ سیکولر جماعت ابھی سے کانگریس سے قریب قریب 350 سیٹوں کی قربانی مانگنے کے موڈ میں نظرآرہی ہیں۔ کانگریس بھی شاید زمین کی حقیقت کو سمجھ رہی ہے۔ رائے پورکے اجلاس میں اس نے ایک طرح سے یہ بات مان لی ہے کہ اتحاد اس کے لئے بھی ضروری ہے اور اتحاد بنائے بغیر انتخابی کشتی پار کرنے کا اس میں مادہ نہیں بچا ہے۔ ڈی ایم کے صدر ایم کے استالن کے یوم پیدائش کے موقع پر تو کانگریس صدر ملیکا ارجن کھڑگے نے یہاں تک کہہ دیا کہ کانگریس کے لئے وزیراعظم عہدہ کا کوئی سوال ہی نہیں ہے، زیادہ ضروری یہ ہے کہ سب مل کرالیکشن لڑیں۔ اسٹیج پر موجود فاروق عبداللہ، اکھلیش یادو، تیجسوی یادو جیسے لیڈران نے بھی اپوزیشن اتحاد کی کھل کر حمایت کی، لیکن اسٹیج کی یہ دوستی میدان میں بھی اتنی مضبوط رہ پائے گی، فی الحال تو اسی پر بڑا سوال ہے۔
ایسے میں کانگریس کے پاس صرف ایک راستہ بچتا ہے۔ تری پورہ-میگھالیہ-ناگالینڈ کی ہار سے جلد ازجلد ابھر کراگر وہ اس سال ہونے جا رہے باقی اسمبلی انتخابات میں اچھی کارکردگی کرجاتی ہے تو اس کے سیاسی طاقت سے متعلق تمام غیر کانگریسی اپوزیشن لیڈران کے سوال ہوا ہوسکتے ہیں۔ آخر میں ایک سوال اور ہے۔ آئندہ سال ہونے والے لوک سبھا الیکشن کی لڑائی کے لئے 2023 کو سیمی فائنل کا سال کہا جا رہا ہے کیونکہ اس سال 9 ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ ان 9 ریاستوں میں سے تین کے انتخابی نتائج سامنے آنے کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ بی جے پی نے مخالفتین پر سائنسی سبقت ضرور بنالی ہے۔