کان سنگھ نروان
راجستھان کے سیکر ضلع کے کٹراتھل گاؤں کے کان سنگھ نروان آج پورے ملک میں ایک جانا پہچانا نام ہیں۔ قدرتی طرز زندگی کو اپنانے سے کان سنگھ ولیج ٹورزم کے لیے ایک رول ماڈل بن گئے ہیں۔ فطرت، زمین اور گائے پر اپنے کام کی بنیاد رکھنے والے کان سنگھ کی سوچ ایک ایسی لکیر کھینچی تھی جس پر نسلیں چلیں گی۔ یہ کام اپنی جڑوں سے جڑ کر ہی ہو سکتا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی جڑیں چھوڑ دے تو کوئی بامعنی کام نہیں کر سکتا۔
جس طرح قدیم زمانے میں لوگ زیادہ سے زیادہ قدرتی چیزوں کا استعمال کرتے تھے، کان سنگھ نروان بھی اسی طرح اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ کان سنگھ اور ان کا خاندان سادہ اور روایتی طریقوں پر یقین رکھتا ہے۔ اس اصول پر عمل کرتے ہوئے وہ دوسرے لوگوں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ اس مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے، انہوں نے سیکر شہر کے قریب ایک منفرد کنٹری فارم اسٹے بنایا ہے۔ جسے انہوں نے ’جور کی ڈھانی‘ کا نام دیا ہے۔ اس کی خاصیت یہ ہے کہ اسے گائے کے گوبر اور مٹی سے تیار کیا گیا ہے۔
کان سنگھ نروان کا ماننا ہے کہ فطرت ماں جیسی ہے۔ جس کی اپنی بولی اور زبان ہے، جسے انہوں نے سمجھنے اور اس کے مطابق کام کرنے کی کوشش کی ہے۔ کان سنگھ نروان نے 17-18 سال پہلے ایک ایسا مرکز بنایا ہے، جہاں زمین، فطرت اور گائے سے متعلق کام کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے پوری دنیا اور ملک سے لوگ آتے ہیں۔ کان سنگھ نہ صرف فطرت کے دلدادہ ہیں بلکہ جانوروں سے بھی ان کی محبت واضح ہے۔ جوڑ کی ڈھانی کے احاطے میں ایک گائے کے شیڈ میں گائے اور گھوڑے بھی پال رکھے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ جب کان سنگھ نروان نے یہ کام شروع کیا تو لوگوں نے انہیں مثبت انداز میں لیا۔ کئی لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا لیکن ان کی بیوی اور گھر والوں نے انہیں کبھی نہیں چھوڑا۔ سال بھر سردی، گرمی اور بارش سہنے کے باوجود انہوں نے اپنے عزم کو کمزور نہیں ہونے دیا۔
کان سنگھ کا بنایا ہوا گھر اس قدر حیرت انگیز ہے کہ جہاں آپ 48 سے 50 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں بھی آرام سے رہ سکتے ہیں، وہیں آپ کو منفی 5 ڈگری سینٹی گریڈ میں بھی سردی محسوس نہیں ہوگی۔ ملک اور بیرون ملک سے سیاح یہاں دیکھنے اور قیام کرنے آتے رہتے ہیں۔
کان سنگھ نروان کا ماننا ہے کہ دنیا میں زراعت اور ماحولیات سے متعلق کوئی مسئلہ نہیں ہے جسے گائے سے جوڑنے سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ کان سنگھ کہتے ہیں کہ اگر ہندوستان کو دنیا کا لیڈر بننا ہے تو وہ طاقت فوج، سائنس دانوں یا کارپوریٹ گھرانوں سے نہیں بلکہ ملک کے کسانوں سے آسکتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ گاؤں کی سیاحت کو فروغ دینا چاہیے، اس سے گاؤں میں روزگار بڑھے گا اور کسانوں کی آمدنی بھی بڑھے گی۔ یہی نہیں ثقافت اور علم کا تبادلہ ہوگا۔
بھارت ایکسپریس۔