تحریر از: چاروی اروڑ۱
جے پور ادبی میلہ ۲۰۲۴ءمیں موسمیاتی تبدیلی کے موضوع نے مرکزی حیثیت حاصل کی اور اس پر ہونے والی نشستوں میں تہذیبوں پر اس کے اثرات اور اس کے حل تلاش کرنے کی فوری ضرورت پر بحث ہوئی۔ ایسی ہی ایک نشست، جس میں بایو جیو کیمسٹ (حیاتیاتی کیمیا دان) اور مصنف گاربیئل فلیپیلی شامل تھے، میں پائیدار، منصفانہ اور موسمیاتی مزاحم عالمی معیشت کی طرف تبدیلی کو رفتاردینے پر توجہ مرکوز کی گئی ۔ ’’پائیداری کا تعاقب: پالیسی، صنعت اور ماحولیات‘‘ کے عنوان سے اس نشست کا اہتمام نئی دہلی میں واقع امریکی سفارت خانے نے کرایا تھا۔
فلیپیلی کے نام ۲۰۰ سے زیادہ اشاعتیں ہیں جن میں ان کی تازہ ترین کتاب ’’کلائمیٹ چینج اینڈ لائف‘‘بھی شامل ہے جو ۲۰۲۲ءمیں شائع ہوئی تھی۔ وہ ارضی سائنسس کے پروفیسراور انڈیانا یونیورسٹی انوائرنمنٹل ریزیلیئنس انسٹی ٹیوٹ کے ایکزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔
پیش ہیں ان سے لیے گئے انٹرویو کے اقتباسات۔
آنے والی دہائی میں بعض سب سے بڑے ماحولیاتی چیلنجز کیا ہیں اور بایوجیو کیمسٹری ان سے کیسے نمٹ سکتی ہے؟
آنے والی دہائی میں ہمیں جن سب سے بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے ان میں موسمیاتی تبدیلی کا دخل شامل ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے ہمیں فطرت پر مبنی حلوں پر عمل درآمد شروع کرنے کی ضرورت ہے جن کے بارے میں ہمیں سائنس سے معلوم ہو رہا ہے اور جو منصفانہ اور پائیدار نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔ آب و ہوا کی تبدیلی کا ایک چیلنج موسم کے پیٹرن اور بارش میں نمایاں تبدیلی ہے۔ اس کے منفی اثرات شہروں کو خاص طور پر سختی سے متاثر کر رہے ہیں اور اس سے نمٹنے کے قدرتی حل فی الحال شہری علاقوں میں دستیاب نہیں ہیں۔ ایک مثال ویٹ لینڈس یا ایسے علاقے ہیں جو عارضی طور پر طوفانی پانی کو اپنے اندر سموسکتے ہیں۔ اس طرح سیلاب کو کم کیا جا سکتا ہے۔ لہٰذا شہروں کو ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنجوں کے مطابق ڈھلنے میں مدد کرنے کے لیے قدرتی جگہوں کی قدر کرنی چاہیے اور انہیں اپنانا چاہیے۔
ہم آب و ہوا کی تبدیلی کی سائنس کو عوام تک مؤثر طریقے سے کیسے پہنچا سکتے ہیں؟
سب سے پہلے بلدیاتی ادارے، ریاستی اور وفاقی سطح پر فیصلہ سازوں کو اس سائنس کی قدر کرنی ہوگی جو ہم آب و ہوا کے سائنسداں تیار کر رہے ہیں۔ انہیں اس سائنس کو اپنی پالیسیوں اور نفاذ کے فیصلوں میں شامل کرنا ہوگا۔ دوسرا ہمیں آب و ہوا کے متعلق موثر طریقے سے بات کرنے والے ایسے لوگوں کی زیادہ تعداد کی ضرورت ہے جو نہ صرف منفی یا ’’بحران کی قسموں کے بارے میں‘‘ پیغامات پیش کرتے ہوں بلکہموسمیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے والی حقیقی اور موجودہ موثرٹیکنالوجیز اور طریقوں پر بھی بات کرتے ہوں نیز دستیاب تخلیقی موافقت کے عمل کے بارے میں بھی آگاہی فراہم کرتے ہوں۔ لوگوں کو اس کے نتائج کے ساتھ ساتھ امید کی کرن کی ضرورت ہے جو سائنس سے ملنے والا ایک عام پیغام ہے۔
کیا آپ جے ایل ایف میں اپنی بات چیت سے کچھ اہم نکات کا اشتراک کرسکتے ہیں؟
اہمنکات یہ ہیں کہ زرعی پالیسی سمیت مختلف پالیسیوں کو آب و ہوا سے نمٹنے والی حکمت عملیوں کو اپنانے کی ضرورت ہے، نجی شعبے کو آب و ہوا سے متعلق حل کا حصہ بننے کی ضرورت ہے اور اسی طرح مختلف طبقات کو بھی شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ قابل تجدید توانائی جیسے کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے بہت سے طریقوں کے نتیجے میں ذرّات کا اخراج کم ہوتا ہے اور اس طرح صاف ہوا ملتی ہے۔ صاف ہوا کی عدم دستیابی اس خطے کی ایک بڑی تشویش ہے کیونکہ یہ عوامی صحت کو شدید طور پرمتاثر کرتی ہے۔
آب و ہوا کی تبدیلی سے پیدا ہونے والے چیلنجوں کو کم کرنے کے لیے امریکہ اور ہندوستان مل کر کیا اقدامات کر سکتے ہیں؟
کاربن کے اخراج اور آب و ہوا کی تبدیلی کو کم کرنے کی ٹیکنالوجی پہلے ہی دستیاب ہے۔ امریکہ اس معاملے میں ایک اچھی مثال کے طور پر کام کرتا ہے کہ کس طرح ایک ملک ایک بہتر پالیسی کو ایک بہتر فنڈنگ کے ساتھ جوڑ کر ایک بڑا فرق پیدا کر سکتا ہے۔۲۰۲۲ءمیں بننے والاافراط زر میں کمی کا ایکٹ کاربن کے اخراج کو کم کرنے، آب و ہوا کے لچک دار طریقوں کو اپنانے اور آب و ہوا سے نمٹنے والے طبقات کی تشکیل کے لیے منصفانہ اور تیز رفتار کارروائی کے سلسلے میں سینکڑوں ارب ڈالر خرچ کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔ آب و ہوا کی پالیسیوں کو وسائل کے ساتھ ملاکے آب و ہوا کی ذمہ دارانہ کارروائی کے لیے ’’ترغیب‘‘ دی گئی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ امریکہ اور ہندوستان سائنس و کاروبار اور جدت طرازی کو رفتار دینے کے لیے موسمیاتی امور بشمول محققین اور یونیورسٹیوں کی شمولیت پر براہ راست بات چیت کر سکتے ہیں۔ یہ تعاون آب و ہوا کو بہتر کرنے کے طریقوں کی پیش رفت اور نفاذ کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ میں سینئر سائنسی مشیرکی حیثیت سے آپ کے تجربے نے ماحولیاتی پالیسی اور بین الاقوامی تعاون کے بارے میں آپ کے نقطہ نظر کو کس طرح متاثر کیا؟
میں بیورو برائے سمندرو عالمی ماحولیاتی اور سائنسی معاملات میں سینئر سائنسی مشیر کے عہدے پر فائز تھا۔ میری ذمہ داریوں میں آب و ہوا سے متعلق پالیسی، ماحولیاتی مصروفیت اور سائنس کے شعبے میں تعاون شامل تھا۔ خاص طور پر میں نے انٹارکٹک میں آب و ہوا کے مشاہدات پر پالیسی بیانات کا مسودہ تیار کیا، بین الاقوامی سمندری محفوظ علاقوںکے شراکت داروں کے ساتھ شراکت داری میں توسیع کی اور آرکٹک کونسل کے تحت آرکٹک بین الاقوامی معاہدے میں سائنس سے متعلق تعاون کی بین ایجنسی پیش رفت کی نگرانی کی جسے بالآخر قانون کی شکل دی گئی۔ تجربات سے مجھے معلوم ہوا کہ مضبوط اور پائیدار تعاون کو فروغ دینے اور اس پر عمل درآمد کے لیے تمام شعبوں اورفریقوں کے ساتھ واضح اور حقیقی بات چیت اہم ہے۔
بشکریہ اسپَین میگزین، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی