Bharat Express

Israel Hezbollah War

پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے اپنی انتخابی مہم ایک دن کے لیے ملتوی کر دی تھی۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ لبنان اور غزہ کے شہداء بالخصوص حسن نصر اللہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے میں کل اپنی مہم منسوخ کر رہی ہوں۔

حزب اللہ نے اپنے لیڈرحسن نصراللہ کی ہلاکت کی تصدیق کردی ہے۔ حزب اللہ نے خود بیان جاری کرکے کہا ہے کہ اس کے لیڈرحسن نصراللہ اب ان کے درمیان نہیں ہیں۔

بنجامن نیتن یاہونے اقوام متحدہ میں حزب اللہ کے ساتھ جاری تنازع کا ذمہ دارایران کوٹھہرایا۔ اس نے دو نقشے دکھائے، جن میں فلسطین شامل نہیں ہے۔ آئیے جانتے ہیں کہ اس کے پیچھے کیا مقصد ہے۔

حملے کے بارے میں جب امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حملوں کے بارے میں کوئی پیشگی انتباہ نہیں تھا۔

بیروت میں جمعہ کو اسرائیلی فوج کے بڑے حملے کے بعد بھی حزب اللہ سربراہ ابھی زندہ ہیں۔ حزب اللہ کے قریبی ذرائع نے رائٹرز سے دعویٰ کیا ہے کہ حملے کے بعد حسن نصر اللہ سے کوئی رابطہ نہیں ہوپایا ہے، لیکن وہ زندہ اور محفوظ ہیں۔

حزب اللہ اوراسرائیل کے درمیان جاری جنگ کےسبب امریکہ، فرانس نے 21 دنوں کا سیزفائرکا پلان بنایا تھا۔ اس پلان کومنانے سے اسرائیل کے وزیراعظم بنجامن نیتن یاہونے واضح طورپرانکارکردیا ہے۔ نتین یاہوکا کہنا ہے کہ کسی بھی حالت میں اس جنگ کونہیں روکا جائے گا اورحزب اللہ پران کی طرف سے بمباری جاری رہے گی۔

ہندوستانی فضائیہ، وزارت خارجہ اور دیگر ایجنسیوں نے مل کر اس مشن کو پورا کیا۔ ریسکیو آپریشن نے نہ صرف اس بات کو یقینی بنایا کہ زخمی فوجی کو انتہائی مشکل حالات میں ہندوستان لایا گیا بلکہ راستے میں جدید ترین طبی امداد بھی فراہم کی گئی۔

مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ "ہم لبنان اسرائیل سرحد پر فوری طور پر 21 روزہ جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہیں تاکہ سفارت کاری کے لیے جگہ دی جا سکے۔" "ہم اسرائیل اور لبنان کی حکومتوں سمیت تمام فریقوں سے فوری جنگ بندی کی حمایت کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔"

اسرائیل نے لبنان میں فضائی حملے تیز کر دیے ہیں۔ ایسے میں ہندوستانی سفارت خانے نے وہاں رہنے والے اپنے شہریوں کو ملک چھوڑنے کو کہا ہے۔ اس کے علاوہ مزید اطلاع تک لبنان کا سفر نہ کرنے کا بھی مشورہ دیا گیا ہے۔

حزب اللہ کی طاقت کی بات کریں تو اس کے پاس بھاری ہتھیاروں سے لیس غیر سرکاری گروپوں کی فوج ہے، اس کے پاس راکٹ اور ڈرون سمیت کئی خطرناک ہتھیار بھی ہیں، جو اسرائیل کے کسی بھی حصے کو آسانی سے نشانہ بنا سکتے ہیں۔