پروفیسر شاردب ردولوی کا انتقال۔
اردو ادب کے ممتازاورمعروف نقاد پروفیسرشارب ردولوی کا انتقال ہوگیا ہے۔ شارب ردولوی کے انتقال کے سبب اردودنیا سوگوار ہوگئی ہے اور سوشل میڈیا پرتعزیت کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ پروفیسرشارب ردولوی کی پیدائش یکم ستمبر 1935 کو اتر پردیش کے ردولی کے زمینداراورتعلیم یافتہ گھرانے میں ہوئی تھی۔ اطلاعات کے مطابق، پروفیسرشارب ردولوی کی تدفین لکھنؤ کے عباس باغ قبرستان میں آج بدھ کے روز (18 اکتوبر) کو بعد نمازمغرب عمل میں آئے گی۔
پروفیسرشارب ردولوی کے انتقال کے بعد اردوحلقوں میں غم کی لہردیکھنے کو مل رہی ہے۔ ان کے شاگردوں کے علاوہ یونیورسٹیوں کے اردوشعبوں سے وابستہ شخصات کی طرف سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے ان کی مغفرت کےلئے دعائیں کی جا رہی ہیں۔ شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی کی صدر شعبہ پروفیسر نجمہ رحمانی، پروفیسررضی الرحمان، پروفیسرشہزاد انجم، دوست محمد خان، ڈاکٹر علی احمد ادریسی، ڈاکٹرعلاء الدین خان، ڈاکٹررئیس فاطمہ، ڈاکٹر شکیل احمد، ڈاکٹرادریس احمد، ڈاکٹرشاداب شمیم، عبدالباری، ڈاکٹر شاہد اقبال، سمیع الدین سمیت بڑی تعداد میں اردوشعبوں سے وابستہ اساتذہ اور طلباء نے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔
شارب ردولوی کا اصل نام مسیب عباس ہے۔ یکم ستمبر 1935 کو پیدا ہونے والے شارب ردولوی نے بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی لکھنؤ یونیورسٹی سے کیا۔ ان کا وطن ردولی ہے جسے بہت سے صوفیا نے تعلیمات اور روحانی تربیت کا مرکزبنایا۔ لکھنؤاورفیض آباد دونوں سے قربت نے ردولی کو ایک تہذیبی مرکز بنا دیا۔ ایک دورتھا، جب ردولی کے گھر گھر میں علم و ادب کا چرچہ تھا۔ شارب ردولوی کا تعلق ایک زمیں دار گھرانے سے ہے۔ ان کے دادا غلام حسنین اور والد حسن عباس حاذق طبیب و حکیم تھے۔ دادا تو طب کی تعلیم بھی دیتے تھے۔ جہاں تک خاندان کا تعلق ہے تو شارب ردولوی قاضیان سلطان پور کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے مورث اعلی علی بلند دستار افغانستان کے صوبے بلخ سے تعلق رکھتے تھے اوراپنے دور کے بڑے عالم اور صوفی بزرگ تھے۔
بھارت ایکسپریس۔