بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا۔ (فائل فوٹو)
ازقلم : جگت پرکاش نڈا، صحت و خاندانی بہبود اور کیمیاوی اشیاء اور کیمیاوی کھادوں کے مرکزی وزیر، حکومت ہند
عالمی یوم آبادی (11 جولائی) کے موقع پر ہم خاندانی منصوبہ بندی کے معاملے میں بھارت کے بے مثال سفر پر نظر ڈالتے ہیں۔ ہم اپنی کامیابیوں کا جشن مناتے ہیں، مستقبل کے حامل امکانات کی جانب دیکھتے ہیں اور ان چنوتیوں سے نمٹنے کے تئیں اپنی عہد بندگی کی توثیق کرتے ہیں جو آگے درپیش ہوں گی۔
بھارت کی قیادت اور پیش رفت
مئی 2024 میں اقوام متحدہ کی بین الاقوامی کانفرنس برائے آبادی ترقیات سے متعلق 30ویں کانفرنس (آئی سی پی ڈی)میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ بھارت نے نہ صرف یہ کہ آئی سی پی ڈی کے ایجنڈے کو مضبوطی سے قیادت فراہم کی ہے بلکہ بہتر خاندانی بہبود منصوبہ بندی خدمات اور ڈرامائی طور پر اس کے صحتی نتائج خصوصاً ماؤں اور بچوں کی صحت کے معاملے میں زبردست کامیابی حاصل کی ہے۔
آبادی سے متعلق تبدیلیوں کے تقاضوں کی تکمیل
بھارت میں نئی پیڑھی کی خواتین نسبتاً چھوٹے خاندانوں کا متبادل اپنا رہی ہیں، اوسطاً صرف دو بچوں پر اکتفا کیا جا رہا ہے۔ یہ رجحان گذشتہ دہائی ، جس کے دوران نصف سے زائد خواتین (57 فیصد کے بقدر ) کی تولیدی عمر (15 سے 49 برس) نے سرگرمی کے ساتھ جدید مانع حمل ذرائع اپنائے تھے، کے مقابلے میں ایک اہم تبدیلی کا مظہر ہے ۔ مانع حمل ذرائع کا عام استعمال بھارت کی خاندانی منصوبہ بندی کی کامیابی کو اجاگر کرتا ہے۔ تاہم خاندانی منصوبہ بندی محض مانع حمل تک محدود نہیں ہے، یہ صحت اور خواتین کی خیر و عافیت، خاندانوں اور برادریوں سے بھی مربوط ہے۔ یہ خواتین، لڑکیوں اور نوجوانوں کو حقوق اور متبادلوں کی فراہمی کے ذریعہ بااختیار بناتی ہے۔ 369 ملین کے بقدر نوجوان افراد جن کی عمر 10 سے 24 برس کے درمیان ہے، بھارت آبادی کے لحاظ سے ایک تغیراتی مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، اور ایک وکست بھارت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنےکے لیے کمربستہ ہے۔
مزید برآں، گذشتہ دہائی کے دوران اس پروگرام نے خاطر خواہ طور پر بالیدگی حاصل کی ہے، خاندانی بہبود کے معاملے میں مختلف النوع طریقہ ہائے کار اپنائے ہیں جن کا تعلق شفا خانوں پر مبنی ہدف بند طریقہ ہائے کار سے لے کر اب رضاکارانہ طور پر خاندانی منصوبہ بندی کے متبادلوں سے ہے۔ یہ فرق ایسی پالیسیوں کو اختیار کیے جانے کی نمائندگی کرتا ہے جو آبادی سے متعلق بدلتی ہوئی چنوتیوں کا سامنا کرنے کی علامت ہیں۔
قومی آبادی اور صحتی پالیسیاں خاندانی منصوبہ بندی کے لیے اب تک نہ حاصل کی گئی ضروریات سے نمٹنے پر زور دیتی ہیں ۔ اس کے تحت ان خواتین کی فیصد کا تعین کیا جاتاہے جو قطعاً بچے پیدا نہیں کرنا چاہتیں یا بچوں کی پیدائش میں تاخیر کرنے کی خواہش مند ہیں تاہم وہ کسی طرح کے مانع حمل ذرائع کا استعمال نہیں کر رہی ہیں۔ اس پروگرام کو 2012 میں تاریخی سنگ میل کامیابی حاصل ہوئی۔ تولیدی، ماؤں سے متعلق، نوزائیدہ بچوں اور نوخیزوں کی صحت (آر ایم این سی ایچ+اے) پر مبنی طریقہ کار کو ادارہ جاتی شکل دینے کے بعد، ساتھ ہی ساتھ خاندانی منصوبہ بندی 2020 کے ذریعہ خاندانی منصوبہ بندی پر عالمی اصرار اور اب خاندان بندی 2030، اس نے افزوں طور پر بیداری میں اضافہ لانے، معاشرے کی شراکت داری کو فروغ دینے اطلاعات اور خدمات تک رسائی کی کیفیت کو بہتر بنانے ، مانع حمل سے متعلق متبادل دائروں کو وسیع کرنے، آخری سرے تک خدمات کی عمدہ بہم رسانی کو یقینی بنانے اور اعلیٰ تولیدی خطوں میں اختراعی حکمت عملیاں اپنانے پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
ملک کی نمو اور ترقی آبادی کی حرکیات سے مربوط ہے۔ مقصد یہ ہے کہ دونوں یعنی قومی اور ذیلی قومی سطح پر تولیدی صلاحیت کی متبادل سطحوں کو قائم رکھا جائے اور ان کا متبادل تلاش کیا جائے۔ بھارت نے قومی سطح (ٹی ایف آر 2.0) پر پہلے تولیدی صلاحیت کی سطح کا متبادل تلاش کرنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے اور 31 ریاستوں / مرکز کے زیر انتظام علاقوں نے پہلے ہی یہ سنگ میل این ایف ایچ ایس -5 (2019-21) کے مطابق حاصل کر لیا ہے جو اس کے اس سفر کی کامیابی کا ایک حصہ ہے۔
خاندانی منصوبہ بندی کے ساتھ اسے عالمی پیمانے پر بھی ماؤں اور بچوں کی بیماری اور شرح اموات میں تخفیف لانے کے ذریعہ کے طور پر تسلیم کیا جا چکا ہے اور اس پروگرام کا ایک اہم عنصر ماؤں اور بچوں کی صحت کو بہتر بنانے پر مرکوز ہے جس نے ایک جامع طریقہ سے مجموعی پالیسی مقاصد کو وسعت دی ہے۔
بھارتی ریاستوں کی آبادی سے متعلق متنوع کیفیت پوری دنیا میں منفرد حیثیت رکھتی ہے اور خاندانی منصوبہ بندی حکمت عملیاں بھی اسی لحاظ سے اپنائی گئی ہیں۔ قابل رسائی مانع حمل ذرائع اور متبادل کے دائرے کو وسیع کرنے کے ساتھ ساتھ حکمت عملی یہ بھی ہے کہ سماجی مسائل مثلاً شادی کے وقت عمر، پہلے بچے کی پیدائش کے وقت عمر، اور لڑکی کے ذریعہ حصول تعلیم جیسے پہلوؤں کو بھی اہم طریقہ سے زیر غور لا یا جائے۔ یہ وہ عناصر ہیں جو ایسی خاندانی منصوبہ بندی کے مجموعی طریقہ کار کو کامیاب بنانے کے لیے اہمیت کے حامل ہیں جن کے توسط سے ملک کی متنوع ضروریات کی تکمیل کرنا ممکن ہو سکتا ہے۔
مشن پریوار وکاس (ایم پی وی): خاندانی منصوبہ بندی کو تغیر سے ہمکنار کرنا
مشن پریوار وکاس جو حکومت ہند کے تحت کلیدی اہم خاندانی منصوبہ بندی پروگراموں کا ایک حصہ ہے، اس کا آغاز 2016 میں کیا گیا تھا تاکہ مانع حمل ذرائع تک رسائی میں اضافہ لایا جا سکے اور سات ریاستوں (بہار، مدھیہ پردیش، راجستھان، اترپردیش، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ اور آسام) میں واقع 146 ازحد تولیدی اضلاع میں خاندانی منصوبہ بندی خدمات کو فروغ دیا جائے۔
سارتھی واہنوں (پہیوں پر بیداری)، ساس بہو سمیلن کا استعمال کرکے وسیع پیمانے پر مہمات کے اہتمام کے ذریعہ خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات کے لیے تغیراتی طریقہ کار اپنا کر نوجوان خواتین کے لیے درپیش سماجی رکاوٹوں کو دور کیا جا سکتا ہے تاکہ وہ مانع حمل ذرائع تک رسائی حاصل کر سکیں اور ان خواتین کو نئی پہل کے کٹ فراہم کرائے جا سکیں خصوصاً نو بیاہتا جوڑوں کو یہ کٹ فراہم کرائے جائیں تاکہ انہیں خاندانی منصوبہ بندی کے تئیں حساس اور بیدار بنایا جا سکے اور وہ ذمہ دارانہ انداز میں والدین بننے کے طور طریقے سیکھ سکیں۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ ایسا صحتی نظام مستعد اور چاق و چوبند بنایا گیا جو عمدگی کی حامل خدمات اور ایک مضبوط خاندانی منصوبہ بندی لاجسٹکس انتظام اطلاعاتی نظام کا استعمال کرکے بلا فصل مانع حمل ذرائع کی سپلائی کو یقینی بنا سکے۔
جدید اقسام کے مانع حمل ذرائع کو اپنانے کے معاملے میں اہم حصہ داری رونما ہوئی ہے، اضلاع میں اس پروگرام کو تیزی سے اپنایا گیا ہے جس سے ایم پی وی دخل اندازیوں کے مثبت اثرات کا پتہ ملتا ہے۔ ایم پی وی اضلاع میں جدید اقسام کے مانع حمل ذرائع کو اپنانے کے معاملے میں جو اصلاحات رونما ہوئی ہیں ان کے نتیجے میں حکومت کو یہ فیصلہ لینے میں آسانی ہوئی کہ اس پروگرام کو ان تمام سات ریاستوں میں بڑھاوا دیا جائے اور ساتھ ہی ساتھ 2021 میں شمال مشرقی ریاستوں میں بھی اسے وسعت دی جائے۔
قومی خاندانی منصوبہ بندی پروگرام کے تحت متبادل ذرائع کی تعداد کو وسعت دینا
آبادی کی بدلتی ہوئی صورتحال اور ضروریات سے ہم آہنگ رہنے کے لیے مانع حمل کے مختلف النوع ذرائع کی اقسام کو 2016-17 کے مالی سال میں وسعیت دی گئی ہے۔ فی الحال، قومی منصوبہ بندی پروگرام ایسے جدید قسم کے متعدد مانع حمل ذرائع پیش کرتا ہے جنہیں ضرورت پڑنے پر ترک بھی کیا جا سکتا ہے۔ ان میں کانڈوم، اندرونِ رحم استعمال ہونے والے آلات، کھانے والی گولیاں، ایم پی اے انجکشن وغیرہ شامل ہیں۔ 10 ریاستوںمیں ہر دو اضلاع پر احاطہ کرتے ہوئے جلد کے نیچے اور زیر جلد حصوں سے متعلق (انترا- ایس سی) انجکشن لگانے کا طریقہ کار ابتدائی تعارف کے مرحلے میں ہے، منصوبہ یہ ہے کہ آئندہ برسوں میں کل ہند پیمانے پر اسے مزید وسعت دی جائے۔
عمل کے لیے ایک نعرہ
اب جب ہم عالمی یوم آبادی 2024 منا رہے ہیں، جس کا عنوان ہے ’’ماں اور بچے کی صحت اور خیر و عافیت کے لیے وضع حمل کی صحت مند ٹائمنگ اور فاصلہ‘‘۔ ہم اپنے ریاستی شرکائے کار کی کوششوں اور ہمارے صحتی کارکنان پر مبنی افرادی قوت کی بے مثال لگن اور وابستگی کا اعتراف کرتے ہیں جن میں اے این ایم، آشا کارکنان اور دیگر زمینی سطح پر کام کرنے والے کارکنان شامل ہیں جو اہم اطلاعات اور خدمات کی فراہمی کے معاملے میں ہراول کے طور پر کام کرتے ہیں۔ دنیا کے نوجوانوں، نوخیزوں، خواتین او ربچوں کی تعداد کا ایک قابل ذکر حصہ ہمارے ملک میں سکونت پذیر ہے، اس کے نتیجے میں ہمیں آبادی کی شکل میں ایک منفرد بالادستی ہے۔ تاہم یہ چیز اس ضرورت کو بھی اجاگر کرتی ہے کہ ہمیں اپنے عوام الناس کی صحت اور خیر و عافیت کے لیے سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔
عمدگی کی حامل حفظانِ صحت خدمات اور مانع حمل ذرائع کے وسیع تر دائرے تک رسائی اہمیت کی حامل ہے۔ حکومت نے رسائی سے متعلق بندشوں پر قابو حاصل کرنے کا عہد کر رکھا ہے۔ مانع حمل ذرائع کے استعمال کے سلسلے میں جو غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، انہیں دور کرنے، مؤکلان میں بیداری کے فقدان، جغرافیائی اور اقتصادی چنوتیاں، سماجی اور ثقافتی بندشیں، ان سب کو ختم کرنا لازم ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی، خدمات بہم رسانی، جن میں دونوں یعنی عارضی اور طویل المدت مانع حمل ذرائع کے طریقہ ہائے کار شامل ہیں، کے لیے دستیابی کو یقینی بنانا، جیسی باتیں ایسی ہیں جن میں خاطر خواہ سرمایہ کاریاں عمل میں لائی جا رہی ہیں۔ وافر بجٹی تخصیص کی جا رہی ہے، اور صحتی سہولتوں اور معاشرتی کارکنان کے توسط سے بلا روک ٹوک سپلائی کو برقرار رکھا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ خاندانی منصوبہ بندی خدمات کی توسیع آیوشمان آروگیہ مندروں کے توسط سے آخری سرے تک کی جا رہی ہے جس تیز رفتاری سے ڈیجیٹل دنیا بالیدہ ہوئی ہے، حکومت اس موقع کو مؤثر طریقے سے استعمال کرنے کے لیے پابند عہد ہے تاکہ ہماری تصوریت کو مربوط اور اس کی ترویج و اشاعت مؤثر طریقے سے ممکن ہو سکے، اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ اطلاعات اور خدمات کی بہم رسانی کے معاملے میں کوئی شخص پیچھے نہ رہ جائے۔
ہمارے خاندانی منصوبہ بندی کے اہداف کے حصول کے لیے تمام تر شراکت داران کا اشتراک اور عہد بندگی ضروری امر ہے۔ مانع حمل ذرائع اور طریقوں کے دائرے کو وسعت دے کر تولیدی صحت کو ترجیح دینا لازمی امر ہے۔ مزید برآں، بھارت کو اپنی آبادی کی شکل میں جو بالادستی حاصل ہے اس کے ذریعہ ہمہ گیر ترقی، شہری کرن اور نقل مکانی کی پیچیدگیوں کا سامنا کیا جانا چاہئے۔ اپنی پالیسیوں میں ان تمام عناصر کو شامل کرکے اس امر کو یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ آبادی میں ہونے والی نمو ایک ہمہ گیر مستقبل اور معاشرے کے تمام عناصر کے لیے مبنی بر شمولیت خوشحالی کا ذریعہ بن جائے۔
کامیاب اہداف دخل اندازیوں کی بازگشت کو مخصوص حکمت عملیوں کے ذریعہ حاصل کیےگئے مقام کے ساتھ ہم آہنگ ہونا بھی ضروری ہےمستقبل کی نمو کی حصول کے لیے تمام تر سقم اور کمزوریوں کو مستحکم طریقہ کار اپنانا ہوگا۔
اس یوم آبادی کے موقع پر، آیئے ہم سب عہد کریں کہ ہم سب کے لیے ایک روشن تر اور صحت بخش مستقبل تعمیر کریں گے۔ ہماری خصوصی توجہ پورے بھارت میں حاشیے پر زندگی بسر کرنے والی خستہ حال برادریوں پر مرکوز ہوگی۔ آیئے ہم سب ایک ایسے مستقبل کے لیے کوشاں ہوں جہاں ہماری آبادی کی شکل میں حاصل فوائد کلی طور پر بروئے کار لائے جا سکیں، جہاں ہر شہری عمدگی کے حامل حفظانِ صحت کی خدمات تک رسائی حاصل کر سکے، اور جہاں ہمارے عوام کی صحت او رخیرو عافیت ہمارے ملک کی ترقی اور خوشحالی کی بنیاد ہو۔
بھارت ایکسپریس۔