سپریم کورٹ آف انڈیا (فائل فوٹو)
اتر پردیش میں کانوڑ یاترا روٹ پر’نیم پلیٹ’ لگانے کے فیصلے پرسپریم کورٹ میں سماعت چل رہی ہے۔ جسٹس ہرشی کیش رائے اورجسٹس ایس وی این بھٹی کی بینچ اس معاملے کی سماعت کررہی ہے۔ درخواست گزاروں کے وکیل نے دلیل دیتے ہوئے اسے غلط قراردیا ہے اورحکومت کو واپس لینے کا حکم دینے کی گزارش ی ہے۔ درخواست گزارکے وکیل نے کہا کہ یہ تشویشناک صورتحال ہے۔ پولیس افسران تقسیم پیدا کررہے ہیں۔ اقلیتوں کی نشاندہی کرکے ان کا معاشی بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ درخواست گزارکے وکیل سی یوسنگھ نے دلیل دی کہ حکومت کا حکم سماج کوتقسیم کرنے جیسا ہے۔ ایک طرح سے یہ اقلیتی دکانداروں کی نشاندہی کرنے اوران کا معاشی بائیکاٹ کرنے کے مترادف ہے۔ ان میں یوپی اوراتراکھنڈ یہ کام کررہے ہیں۔
سپریم کورٹ نے پوچھا یہ پریس بیان تھا یا حکم؟ درخواست گزارکے وکیل نے کہا کہ اس سے قبل ایک پریس بیان آیا تھا۔ پھرعوامی غم وغصہ دیکھنے کوملا۔ ریاستی حکومت کہتی ہے ”مرضی سے“، لیکن وہ اسے سختی سے نافذ کررہے ہیں۔ درخواست گزارکے وکیل نے کہا کہ ایسا پہلے کبھی نہیں کیا گیا۔ اس کی کوئی قانونی حمایت نہیں ہے۔ کوئی قانون پولیس کمشنرکوایسا کرنے کا حق نہیں دیتا۔ ہدایات ہرہاتھ-گاڑی، ریہڑی، چائے اسٹال کے لئے ہے۔ ملازمین اورمالکان کے نام ظاہرکرنے سے کوئی مقصد پورا نہیں ہوتا۔
عرضی میں یوپی حکومت کے فیصلے کو دیا گیا چیلنج
درخواست میں اتر پردیش حکومت کے فیصلے کوچیلنج کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کے اس حکم نامے کو منسوخ کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔ این جی او’ایسوسی ایشن آف پروٹیکشن آف سول رائٹس’ نے سپریم کورٹ میں یہ عرضی دائرکی ہے، این جی او نے اس عرضی میں یوپی حکومت، ڈی جی پی، ایس ایس پی مظفرنگرکو فریق بنایا ہے۔ اس کے علاوہ درخواست میں اتراکھنڈ حکومت کوبھی فریق بنایا گیا ہے۔ اتر پردیش کی طرزپر اتراکھنڈ میں ہری دوارکے ایس ایس پی نے بھی ایسی ہی ہدایات جاری کی ہیں۔
این جی او کے علاوہ انہوں نے بھی دائرکی ہے عرضی
این جی اوکے علاوہ پروفیسراپوروا نند اورآکارپٹیل نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔ عرضی میں کانوڑ یاترا روٹوں پردوکانداروں کے نام لکھنے کے یوپی اوراتراکھنڈ حکومت کے فیصلے کو چیلنج دیا گیا ہے۔ ٹی ایم سی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا نے بھی یوپی اوراتراکھنڈ کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ حالانکہ اس پورے معاملے میں حکومت کا کہنا ہے کہ کانوڑ یاتریوں کی عقیدت کو مقدس بنائے رکھنے کے لئے اس نے یہ فیصلہ کیا ہے۔
بھارت ایکسپریس–