افغانستان میں طالبان کی حکومت کے آنے کے بعد حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ خواتین پر پہلے ہی ملازمت یا کاروبار کرنے پر پابندی عائد ہے۔ ایسے میں بہت سی خواتین کو اپنے بچوں کے لیے دوسروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ ان خواتین کے شوہر پہلے ہی مارے جا چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک میں مہنگائی نے لوگوں کا جینا مشکل کر دیا ہے۔ ایسے میں ملک کے حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ لوگوں کو خوراک تک کا محتاج ہونا پڑتا ہے۔ افغانستان میں خوراک کا بحران تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ملک میں کھانے پینے کی اشیا کی قلت ہے۔ بچے غذائی قلت کا شکار ہو چکے ہیں۔
ملک میں خوراک کی ذمہ دار تنظیموں نے بھی لوگوں کی مدد کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ جس کی وجہ سے لوگ سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ زندہ رہنے کے لیے کیا کریں۔
صرف 30 لاکھ لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء فراہم کرنے کی صلاحیت
فوڈ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ وہ صرف 30 لاکھ لوگوں کے لیے کھانے کا انتظام کر سکتی ہے۔ ریاست میں ان حالات میں مبتلا افراد کی تعداد چار گنا زیادہ ہے۔ یونیفیس کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں تیس لاکھ سے زائد بچے غذائی قلت کا شکار ہو چکے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کے حالات کتنے خراب ہیں۔ یہاں تک کہ بچوں کی حالت بہت خراب ہے۔
غیر ملکی فنڈنگ میں کمی
سال 2021 میں طالبان نے ملک پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس سے قبل عالمی ادارے افغانستان کو بھوک اور صحت کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے وسیع پیمانے پر امداد فراہم کر رہے تھے۔ لیکن طالبان کے اقتدار میں آتے ہی بہت سے ممالک نے افغانستان کو انسانی امداد کی فراہمی روک دی۔ لیکن اس کے پیچھے ایک اور وجہ بھی بتائی گئی ہے۔ یعنی یوکرین روس جنگ اور بعد میں اسرائیل اور حماس کی جنگ نے بڑے ممالک کی معیشت کو خراب کر دیا۔ جس کی وجہ سے افغانستان میں یہ صورتحال پیدا ہوئی۔
ایک رپورٹ کے مطابق سال 2021 سے قبل افغانستان میں کل اخراجات کا تین چوتھائی حصہ غیر ملکی فنڈنگ سے آتا تھا لیکن طالبان کی حکومت کے بعد لاکھوں افراد کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئیں۔