Bharat Express

Creating a Circular Economy: دائرہ نما معیشت کی تشکیل

کارخانوں میں موجودہ مصنوعات کی ازسر نو تیاری نہ صرف قدرتی وسائل پر انحصار کو کم کرسکتی ہے بلکہ وسائل سے بھرپورمعیشت بھی تشکیل دے سکتی ہے۔

راجیو رام چندر

میں نے کووِڈ-19 لاک ڈاؤن سے تقریباً چھ ماہ قبل 2019 میں ’ری کری ایٹ ‘کی بنیاد رکھی۔  اس کمپنی کے قیام کے پس پشت  ترغیب مجھے ایک پالیسی ریسرچ پروجیکٹ سے ملی، جس پر میں نے ای یو۔ آرای آئی (یوروپین یونین۔ ریسورس ایفیشی  اینسی انیشی اٹیو) پروگرام اورحکومت ہند کے ساتھ کام کیا تھا، جس نےدائرہ نما اوروسائل سے بھرپورمعیشت  کی جانب بھارت کی منتقلی میں اہم توجہ مرکوزکئے جانے والے چارشعبوں میں گردش، خدشات اورمواقع کی صورت حال  سے آگاہ کیا۔ میری توجہ اسٹیل اورایلومینیم پرتھی۔

  تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ ملکی معیشت کے ارتقائی سفرمیں ازسرنوپیداوار(ری مینو فیکچرنگ) پرسنجیدگی سے غورنہیں کیا جا رہا تھا۔ رپورٹ کی ایک سفارش یہ تھی کہ ’’ ری مینوفیکچرنگ انڈسٹری کی ترقی کو متحرک کرنے کےلیے  ری مینوفیکچرنگ کونسل یا ایسوسی ایشن قائم کی جائےتاکہ دوبارہ  پیداواری صنعت کی ترقی کو متحرک کیا جا سکے۔‘‘ اسی چیز نے میری زندگی کی سمت ورفتارکا تعین کیا اورمیں نے اسے انجام دینے کا ارادہ کرلیا۔

  ری مینوفیکچرنگ کیا ہے؟

ری مینوفیکچرنگ ایک صنعتی عمل ہے جس میں گھسی پٹی  یا غیر فعال مصنوعات کو  نئی جیسی  یا نئی سے بہتر حالت اور کارکردگی میں لوٹایا  جاتا ہے۔ اس طرح مصنوعات کے وجود کے آخری مرحلے  اور اجزاء کو معیشت میں واپس لایا جاتا ہےجس سے تازہ قدرتی وسائل کی ضرورت کم ہو جاتی ہے۔ ری مینوفیکچرنگ کے جواز  کے طور پر اہل ہونے کے لیے یہ عمل انجینئرنگ، معیار اور جانچ کے معیارات     سمیت مخصوص تکنیکی خصوصیات کے مطابق ہونا چاہیے اور مکمل وارنٹی کے ساتھ مصنوعات حاصل کی جانی چاہئے۔

بیداری پیدا کرنا

’ری  کری ایٹ ‘  بھارت کے اندراورباہرنجی شعبے کی کمپنیوں اورصنعتی اداروں کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے صنعت کے اندربیداری اوراتحاد پیدا کررہا ہے۔

ری  کری ایٹ نے اپریل ۲۰۲۲ء میں ’’ری مینوفیکچرنگ: پائیدار کاروبار کا مستقبل‘‘ کے موضوع پر ایک ہائبرڈ تقریب کی میزبانی کے لیے  ممبئی میں واقع امریکی قونصل خانہ اور اِنڈو ۔ امیریکن چیمبر آف کامرس کے ساتھ شراکت داری کی۔ مقررین میں ایم ای ایم اے، دی وہیکل سپلائرس ایسوسی ایشن، جس کا صدر دفتر واشنگٹن ڈی سی میں ہے،   میں پائیداریت کے اعلیٰ آفیسر  جان چلیفوکس  اور ٹاٹا موٹرس میں حکومت اور عوامی امور کے عالمی سربراہ سشانت نائک شامل تھے ۔ مزید برآں، میں نے مئی ۲۰۲۲ء میں کمنس انڈیا کی پنے میں  واقع سہولتوں  کا دورہ کیا تاکہ ان کےری  مینوفیکچرنگ آپریشنس کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی جا سکیں اور بھارت  میں ری مینوفیکچرنگ کی ترقی کے مواقع پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ کمنس ایک امریکی ملٹی نیشنل کارپوریشن ہے  جسے  ایندھن کے انجنوں اور جنریٹرس میں مہارت حاصل  ہے۔

ری مینوفیکچرنگ کے فوائد

ری مینوفیکچرنگ:

موزوں شعبوں میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو ۷۹ سے ۹۹ فی صد تک کم کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔

۔نئے مواد کی ضرورت کو ۸۰ سے ۹۸فی صد تک کم  کرسکتی ہے۔

ہنر مندمزدوروں  کے اوقات میں ۱۲۰ فی صد تک اضافہ کر سکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ  ری مینوفیکچرنگ  اور بعض اوقات تزئین وآرائش ہنرمند مزدوروں کی بڑی ضروریات ہوتی  ہیں۔

کم پیداواری لاگت،کیوں کہ  دوبارہ تیارکردہ مصنوعات عام طور پرمواد اور توانائی کے مواد کی وصولی سے ہونے والی بچت کے سبب  نئی مصنوعات کی لاگت کا ۶۰ سے ۸۰ فی صد ہوتی ہیں۔

آئیے چند مثالوں پرنظر ڈالتے ہیں، جیسے جیسے الیکٹرک گاڑیوں اور بیٹری سے چلنے والے دیگرآلات کی مانگ تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے، استعمال شدہ بیٹریوں کو دوبارہ تیارکرنا ماحولیاتی، سماجی اوراقتصادی طور پر ایک  زبردست  موقع فراہم کررہاہے۔ بیٹریوں میں  خطرناک مادّے ہوتے ہیں جنہیں اگرمناسب طریقے سے ضائع نہ کیا جائے تووہ مٹی اورزیرزمین پانی کو آلودہ کرسکتے ہیں۔ مزید برآں، لیتھیم جیسے مواد کی کان کنی، جو الیکٹرک گاڑیوں کی بیٹریوں میں استعمال ہوتی ہے، ان کے منفی ماحولیاتی اثرات بھی مرتب  ہو سکتے ہیں۔ بیٹریاں دوبارہ تیارکرکے اورانہیں متعدد مکمل استعمال کی لائف سائیکل دے کر ان مواد کو بھراؤ میں ختم ہونے یا ماحولیات  میں داخل ہونے سے روکا جا سکتا ہے، جہاں وہ انسانی صحت اور ماحولیات  کونقصان پہنچا سکتی ہیں، نیز قدرتی وسائل کو نکالنے اوراستعمال کرنے کی ضرورت کو کم کرسکتی ہیں۔

ری مینوفیکچرنگ سے طبّی  امیجنگ آلات جیسے ایکس رے، سی ٹی اسکین یا ایم آرآئی مشینوں تک رسائی بڑھانے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ کم آمدنی والے ڈھانچوں میں اسپتال یا تجربہ گاہیں مشینوں کو بہتر بنانے کی کوشش میں ممکنہ طورپردوبارہ تیار کردہ امیجنگ  آلات  کا انتخاب کرسکتی ہیں کیونکہ وہ نئے آلات کے مقابلے میں  کم مہنگے ہوں گے لیکن بالکل نئے کی طرح کام کریں گے۔ یہ دنیا بھر میں پائیدار، سستی اور قابل رسائی حفظان صحت  فراہم کرنے کی وسیع ترتحریک کا حصہ ہے۔

تاہم، یہ بہت اہم ہے کہ ری مینوفیکچرنگ کے عمل  کو مضبوط معیارات اورمعتبرتصدیقات کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے تاکہ اعلیٰ ترین مصنوعات کے معیار کو یقینی بنایا جا سکے، ساتھ ہی ساتھ ویلیو چین میں موجود سبھی کے لئے حفاظت کو یقینی بنایا جا سکے۔ بلاشبہ، مصنوعات کوغیرمعینہ مدت تک دوبارہ تیارنہیں کیا جا سکتا۔ ری سائیکلنگ کے ذریعے مواد بحالی کے نظام بھی مجموعی صنعتی ماحولیاتی نظام میں اپنی جگہ رکھتے ہیں۔ تاہم، ری سائیکلنگ کو دائرہ نما  معیشت  کے فن تعمیر کے مقدس برتن  کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔

  پائیدارپیداوار

ری مینوفیکچرنگ آٹوموٹیو، ایرواسپیس، صارفین کے آلات، مشینری مینوفیکچرنگ، الیکٹرانکس اور طبّی آلات کی صنعتوں سمیت مختلف صنعتوں میں ہوتی ہے۔  میک اِن انڈیا جیسے سرکاری پروگراموں کے ساتھ ساتھ پائیدارپیداوار کی سمت میں  پیداوار سے مربوط  مراعات کا فائدہ اٹھا کر ری  مینوفیکچرنگ کو ممکنہ طور پر بڑھایا جا سکتا ہے۔صارفین کی بیداری سے متعلق مہمات کو  دوبارہ تیار کردہ مصنوعات کے سماجی، ماحولیاتی اور اقتصادی فوائد کو اجاگر کرنے اور ان غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے  ایک اہم رول ادا کرنا ہے  جو دوبارہ تیار کردہ مصنوعات کو  دوسرے درجے کی مصنوعات گردانتے  ہیں۔

بشکریہ سہ ماہی اسپَین میگزین، شعبہ عوامی سفارت کاری، پریس آفس، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی

    Tags:

Also Read