'ڈیئر جسی' پنجاب میں 'آئنر کلنگ کے نام پر قتل کی سچی کہانی پر مبنی ہے
Arab Diary9: ہندوستانی نژاد کینیڈین فلمساز ترسیم سنگھ کی پنجابی فلم ‘ڈیئر جسی’ کو سعودی عرب کے شہر جدہ میں منعقدہ تیسرے ریڈ سی انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں دوسرے سب سے بڑے ایوارڈ ‘سلور یوزر ایوارڈ’ سے نوازا گیا۔ جس کے تحت انہیں تیس ہزارڈالرکا نقد انعام بھی دیا گیا ہے ۔’ڈیئر جسی‘ کو ’اوہ مائی گاڈ-2‘ کے ہدایت کار امت رائے نے لکھا ہے۔ اسے ٹی سیریز کے بھوشن کمار، واکاؤ فلمز کے وپل شاہ اور دیگر نے پروڈیوس کیا ہے۔
یہ فلم کینیڈا کی جسوندر کور سدھو کی زندگی کی سچی کہانی پر مبنی ہے ۔جو پنجاب آکر ایک نیچی ذات کے ایک غریب لڑکے سے پیار کرتی ہے اور بعد میں کافی جدوجہد کے بعد اس سے عدالت میں شادی کر لیتی ہے۔ لیکن اس کے گھر والےنہیں مانتے اور بالآخر دونوں کوقتل کر دیا گیا۔اس میں پاویہ سدھو، یوگم سود، وپن شرما، بلجیندر کور، سنیتا دھیر وغیرہ نے مرکزی کردار ادا کیے ہیں۔ یہ ایک سچی محبت کی کہانی کا المناک انجام ہے ۔جس میں ایک امیر اونچی ذات کی لڑکی ایک غریب نچلی ذات کے لڑکے سے شادی کرتی ہے اور دونوں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔
فلم کے ہدایت کار ترسیم سنگھ نے میڈیا سے درخواست کی ہے کہ وہ اس واقعے کو ‘ آئنر کلنگ کے نام پر قتل’ نہ لکھا۔بولا جائے بلکہ ۔ آئنر کیلنگ کے نام پر قتل کی اصطلاح سے یہ وہم پیدا ہوتا ہے کہ جوڑے کا قتل جائز تھا۔ اس فلم کا ورلڈ پریمیئر اس سال 11 ستمبر 2023 کو ٹورنٹو انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں ہوا۔ گوا میں منعقد ہونے والے 54 ویں انٹرنیشنل فلم فیسٹیول آف انڈیا میں کچھ نامعلوم وجوہات کی بنا پر ‘ڈیئر جسی’ کا شو آخری لمحات میں منسوخ کر دیا گیا۔ ڈائریکٹر نے ولیم شیکسپیئر کے مشہور ڈرامے ‘رومیو جولیٹ’ سے اصل متاثر ہوکر پنجاب میں ایک حقیقی المناک محبت کی کہانی بنائی ہے۔ فلم کی شروعات دو لوک گلوکاروں کے پنجاب کے ایک وسیع سبز میدان میں گانے سے ہوتی ہے۔ یہ دونوں بلے شاہ کا گانا گا رہے ہیں ۔جس میں وہ کہتے ہیں کہ مندر یا مسجد بھلےہی توڑدوپر محبت کرنے والے دل کومت توڑو۔ دو پریمیوں جسی (پاویہ سدھو) اور مٹھو (یگم سود) کے قتل کے بعد، فلم کا اختتام انہی دو لوک گلوکاروں کے گانوں پر ہوتا ہے۔ ہمیں ایک آواز اوور کمنٹری سنائی دیتی ہے کہ سب جانتے ہیں کہ قتل کس نے کیا، لیکن بائیس سال سے مقدمہ چل رہا ہے اور کوئی سزا نہیں دی گئی۔
ترسیم سنگھ نے بہت سے مناظر کو فنکارانہ انداز میں فلمایا ہے۔جیسے جسی اور مٹھو پنجاب کے گاؤں میں اپنی اپنی چھتوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔ یہ منظر شیکسپیئر کے رومیو اور جولیٹ کے بالکونی کے منظر کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایک دوسرے کو تلاش کرنے کے جوش سے زیادہ، دونوں محبت کرنے والے ایک باوقار زندگی کے لیے غیر معمولی صبر اور عزم کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ فلم کی میکنگ سادہ اور حقیقت پسندانہ ہے۔ہر منظر سادگی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ٹریول ایجنسی نامی ادارہ جو شہریوں کی ایک ملک سے دوسرے ملک جانے کی جائز خواہشات کو پورا کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔اس میں سہولت فراہم کرنے کی بجائے جان بوجھ کر حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ اور دھوکہ دہی کرنے کو تیار بیٹھی ہے ۔ دوسری طرف پولیس رشوت لے کر معاملے کو پیچیدہ بناتی ہے اور ہر وقت بڑے مجرموں کی خدمت میں لگی رہتی ہے۔ فلم کی خاص بات یہ ہے کہ ترسیم سنگھ نے بغیر سنسنی خیز ہوئے آخری سین تخلیق کیا ہے ۔جس میں محبت کرنے والوں کوقتل ہوتاہے۔
فلم کلائمکس تک پہنچنے سے پہلے بہت سے مضحکہ خیز مناظر سے بھری پڑی ہے۔ تاہم، ہر جگہ ایک ‘کافکا دراؤنا خواب’ موجود ہے۔ جو اگلے ہی لمحے کسی غیر متوقع چیز کا تاثر دیتا ہے۔ مصنف امیت رائے نے چھوٹے سے چھوٹے واقعات کو بھی ذہن میں رکھا ہے۔حتیٰ کہ شادی کی صبح جسی اور مٹھو کے بستر پر خون کا دھبہ نظر آتا ہے اور جب روم سروس ویٹر دروازے پر دستک دیتا ہے۔ تو عاشقوں کا خوف بھی لگتا ہے۔ اسی طرح سردی کی آدھی رات کو مٹھو کے ذریعہ دوست کے پی سی او کے باہر کینیڈا سے جسی کے فون کا انتظار بھی دردناک ہے۔
بھارت ایکسپریس