Bharat Express

Stop Funding Media Firms: آئی آئی ایم بنگلور کے فیکلٹی ممبران کا جرات مندانہ قدم، کارپوریٹس گھرانوں سے نفرت پھیلانے والے میڈیا اداروں کو فنڈنگ دینے سے گریز کرنے کی اپیل

سترہ فیکلٹی ممبران نے یہ بیان  اس لئے جاری کیا ہے تاکہ کارپوریٹ کے ذمہ داروں اور سربراہوں کی توجہ ملک میں پرتشدد تنازعات کے بڑھتے ہوئے خطرات  کے ساتھ داخلی سلامتی کی  غیر معمولی صورتحال کی جانب توجہ مبذول کرائی جائے۔

آئی آئی ایم بنگلور کے کئی فیکلٹی ممبران نے منگل کو ایک بیان جاری کیا۔ اپنے اس بیا ن میں فیکلٹی ممبران نے  کارپوریٹ گھرانوں او اداروں سے یہ اییل کی ہے کہ وہ ایسے میڈیا یا سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو اشتہارات اورعطیات دینے سے گریز کریں جو ملک میں نفرت کا بازار گرم کرتے ہیںاو نفرت انگیز مواد یا نسل کشی جیسے خبریں شائع کرتے ہیں۔

سترہ فیکلٹی ممبران نے یہ بیان  اس لئے جاری کیا ہے تاکہ کارپوریٹ کے ذمہ داروں اور سربراہوں کی توجہ ملک میں پرتشدد تنازعات کے بڑھتے ہوئے خطرات  کے ساتھ داخلی سلامتی کی  غیر معمولی صورتحال کی جانب توجہ مبذول کرائی جائے۔

انہوں نے کارپوریٹس سے اپیل کی کہ وہ اندرونی آڈٹ کرائیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ان کے فنڈز نفرتی پروپیگنڈروں کے بجائے صحیح اور اپنی ذمہ داریوں سے غفلت نہ برتنے والے میڈیا پلیٹ فارمز اور سوشل میڈیا اداروں کو جائے۔

 فیکلٹی ممبران نے کہا کہ کارپوریٹس گھرانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی تنظیموں کے ذریعہ حساس پروگراموں کا بروقت انعقاد کریں تاکہ اس بات کو یقینی  بنایا جا سکے کہ ان کا کام کا کلچر مختلف عقائد اور سماجی پس منظر کے لوگوں کے لیے خوش آئند رہے۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتوں کے خلاف کھلے عام نفرت کی نمائش اور ماحول سازی ،سیاسی گفتگو ٹیلی ویژن کی خبروں کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی پچھلے کچھ سالوں میں عام بات بن گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فرقہ وارانہ فسادات پر پولیس اور سیکورٹی فورسز کی عدم فعالیت اور پہلے ہوئے فسادات  کے دوران عصمت دری اور اجتماعی قتل میں ملوث مجرموں کو بری یا معاف کرنا حکومت کی طرف سے واضح طورپر لاپرواہی کا مظاہرہ کرتا ہے۔

“یہ رجحانات کارپوریٹ انڈیا سے متعلق ہیں، کیونکہ یہ ملک میں پرتشدد تنازعات کے بڑھتے ہوئے خطرے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ بدترین صورت میں، تشدد کی اس طرح کی کارروائیاں نسل کشی تک پہنچ سکتی ہیں، جو سماجی تانے بانے کے ساتھ ساتھ ملک کی معیشت کو بھی تباہ کر دے گی، اور ہندوستان کے مستقبل پر ایک طویل تاریک سایہ ڈالے گی۔ کارپوریٹ انڈیا، جو 21ویں صدی میں بین الاقوامی ترقی اور اختراع کی نئی سرحدوں تک پہنچنے کی امید رکھتا ہے، اس طرح کے منظر نامے کے ایک چھوٹے سے امکان کے ساتھ بھی رہنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

بڑھتی ہوئی نفرت، نامناسب تقاری اور بنیاد پرستی کی وجہ سے لا محالہ سماجی تانہ بانہ بگڑنے کے امکان سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے،ا سکے علاوہ بڑھتے ہوئے تشدد اور سماجی و اقتصادی بے یقینی کا باعث بنے گا، جو ملک کے مستقبل کو مستقل طور پر مفلوج کر دے گا۔

انہوں نے ہندوستان کو اقتصادی پاور ہاؤس بننے کے لیے معاشرے میں امن، استحکام اور ہم آہنگی کی ضرورت پر زور دیا۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ’’کارپوریٹ انڈیا کے لیڈروں کا نفرت اور غلط معلومات کے پھیلاؤ کو روکنے میں  اہم کردار ہے۔

خط پر دستخط کرنے والے پرتیک راج نے کہا کہ کارپوریٹ عام طور پر اشتہار دینے سے پہلے نیوز آرگنائزیشن کی ٹی آر پی پر غور کرتے ہیں۔ خط میں کمپنیوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس بات پر بھی غور کریں کہ کیا ان کی فنڈنگ سے ایسی تنظیموں اور اداروں کو حوصلہ مل رہا ہے جو معاشرے میں نفرت کے بیج بونے میں غیر معمولی رول اداکرتے ہیں۔

“راج نے کہا کہ اس خط سے توقع کی جاتی ہے کہ کارپوریٹس کو حساس بنایا جائے گا اور انہیں یہ سوچنے پر مجبور کیا جائے گا کہ کیا میڈیا اداروں کو اشتہارات کے ذریعے ان کی فنڈنگ بالواسطہ طور پر قوم کے سماجی ڈھانچے میں خلل کا باعث بن رہی ہے۔ ہمارا ارادہ اس مسئلے پر بات چیت شروع کرنا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملک کے مختلف حصوں میں فسادات اور تشدد کے واقعات رونما ہو رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ لوگوں کے ذہنوں میں نفرت ہے۔ میڈیا کو اس بات کی وکالت کرنے کی ضرورت ہے کہ تشدد کو کیسے روکا جائے اور اسے ذمہ دارانہ صحافت پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ غیر ذمہ دارانہ سنسنی خیز خبروں کے نشر و اشاعت پر۔

 بھارت ایکسپریس۔