علامتی تصویر
دہلی ہائی کورٹ نے ڈیپ فیک کو لے کر دائر عرضی پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ڈیپ فیک سماج میں ایک سنگین خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ مرکزی حکومت کو اس سلسلے میں کارروائی کرنی ہوگی۔ قائم مقام چیف جسٹس منموہن اور جسٹس تشار راؤ گیڈلا کی بنچ نے درخواست گزاروں سے کہا ہے کہ وہ غیر ملکی قانون کا مطالعہ کریں اور دو ہفتے کے اندر تجاویز دیں۔ عدالت اس معاملے میں اگلی سماعت 8 اکتوبر کو کرے گی۔ یہ عرضی چیتنیا روہیلا اور دیگر کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔
’’ڈیپ فیکس کا معاملہ صرف ہندوستان تک محدود نہیں ہے‘‘
کیس کی سماعت کے دوران درخواست گزار کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل نے کہا کہ مرکزی حکومت نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ اور ڈیٹا پروٹیکشن ایکٹ ہی ڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے نمٹنے کے لیے کافی ہیں۔ جس پر عدالت نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ڈیپ فیکس کا معاملہ صرف ہندوستان تک محدود نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں ہو رہا ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ امریکہ جیسے کچھ ممالک نے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے قوانین بنائے ہیں۔
“ڈیپ فیکس سے ہونے والے نقصان کو سمجھیں”
عدالت نے یہ بھی کہا کہ اس ٹیکنالوجی سے ہونے والے نقصان کو سمجھیں، کیونکہ آپ حکومت ہیں۔ ایک تنظیم کے طور پر ہماری کچھ حدود ہوں گی۔ یہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر کیسے کام کرتا ہے؟ مرکزی حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے اے ایس جی نے کہا کہ اسے منسوخ کرنے کے لیے کاؤنٹر اے آئی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اے ایس جی نے یہ بھی کہا کہ کسی کا پتہ لگانا چاہیے، پھر روک تھام، شکایات درج کرنے اور بیداری بڑھانے کے لیے میکانزم بنایا جانا چاہیے۔
پٹیشن ڈیپ فیکس اور اے آئی تک رسائی فراہم کرنے والی ویب سائٹس کو بلاک کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ڈیپ فیکس اور اے آئی ٹیکنالوجی کو کنٹرول کرنے کے لیے رہنما اصول جاری کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ AI ٹیکنالوجی پر کنٹرول آئین کے مطابق ہونا چاہیے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اے آئی ٹیکنالوجی کی تعریف طے کی جائے۔
اے آئی اور ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کو کسی کی پرائیویسی کی خلاف ورزی کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے اور اس کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے گائیڈ لائنز مرتب کی جانی چاہیے، کیونکہ ڈیپ فیک جیسی ٹیکنالوجی کسی کی شبیہ کو داغدار کر سکتی ہے۔
بھارت ایکسپریس–