Bharat Express

Akhilesh Yadav:شیو پال کے ساتھ آنے کے بعدکیا اکھلیش ایس پی کو یادولینڈ میں واپس لا سکیں گے؟

ملائم سنگھ کے بعد شیو پال کی اس علاقے میں اچھی گرفت سمجھی جاتی ہے۔ اسی لیے شیو پال کو اپنے پالے میں لینے کے بعد اب وہ یہاں کے ہر گاؤں میں نوجوانوں سے براہ راست رابطہ قائم کرکے مستقبل کی حکمت عملی کو مضبوط کررہے ہیں۔ اپنے دوروں کے دوران وہ یہاں چائے، پکوڑی اور تلے ہوئے آلوؤں سے لطف اندوز ہوتے بھی نظر آتے ہیں۔ اسے سیاسی نقطہ نظر سے بہت اہم سمجھا جاتا ہے

اکھلیش یادو نے اس برہمن لیڈر کو اسمبلی میں بنایا اپوزیشن لیڈراکھلیش یادو نے اس برہمن لیڈر کو اسمبلی میں بنایا اپوزیشن لیڈر

Akhilesh Yadav:سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو سیفائی لوک سبھا انتخابات جیتنے کے بعد سے اپنے والد کی وراثت کو سنبھالنے میں مصروف ہیں۔ یادو زمین کو مضبوط کرنے کے لیے پہلی بار اٹاوہ، مین پوری، ایٹا، فیروز آباد، اوریا، فرخ آباد اور قنوج پر پوری توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ اسے آئندہ لوک سبھا انتخابات کے لیے ان کی حکمت عملی کے سلسلے میں دیکھا جا رہا ہے۔

ایس پی کے حکمت عملی سازوں کا ماننا ہے کہ ملائم سنگھ کے بعد شیو پال کی اس علاقے میں اچھی گرفت سمجھی جاتی ہے۔ اسی لیے شیو پال کو اپنے پالے میں لینے کے بعد اب وہ یہاں کے ہر گاؤں میں نوجوانوں سے براہ راست رابطہ قائم کرکے مستقبل کی حکمت عملی کو مضبوط کررہے ہیں۔ اپنے دوروں کے دوران وہ یہاں چائے، پکوڑی اور تلے ہوئے آلوؤں سے لطف اندوز ہوتے بھی نظر آتے ہیں۔ اسے سیاسی نقطہ نظر سے بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔

شیو پال نے بھی اکھلیش کو اپنا لیڈر مان لیا

سیاسی ماہرین کی مانیں تو ملائم سنگھ کے بعد شیو پال سنگھ کا اس علاقے میں زمینی تعلق ہے۔ تاہم اب زمانہ بدل چکا ہے۔ شیو پال نے بھی اکھلیش کو اپنا لیڈر مان لیا ہے۔ خاندان کی نئی نسل بھی سیاست میں داخل ہو چکی ہے۔ ایسے میں اکھلیش یادو لینڈ میں کوئی جگہ خالی نہیں چھوڑنا چاہتے۔ اکھلیش نئی نسل پر اپنی چھاپ چھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ابھی تک ان کے خاندان میں کوئی ایسا لیڈر نہیں ہے جو ان کے بغیر آگے بڑھ سکے۔

اکھلیش یادو بیلٹ کو مضبوط کرنے میں لگے ہوئے ہیں

ایس پی لیڈر کے مطابق مین پوری الیکشن جیتنے کے بعد اکھلیش اپنے حلقے میں زیادہ سرگرم نظر آ رہے ہیں۔ وہ ہر چھوٹے بڑے پروگرام میں نظر آتے ہیں۔ انتخابات کے دوران بھی وہ وہاں مسلسل سرگرم رہے۔ مین پوری ایس پی کا گڑھ رہا ہے۔ یہاں سے ایس پی آٹھ بار اور ملائم سنگھ پانچ بار جیت چکے ہیں۔ اس بار ضمنی انتخابات میں ملائم کی ہمدردی اس طرح دیکھی گئی کہ سارے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ چھوٹے لیڈر اکھلیش کو لگنے لگا ہے کہ اگر ان کا ووٹ بینک بچ جائے تو آنے والے الیکشن میں اچھا کام ہو سکتا ہے۔ اسی وجہ سے شیو پال کو اپنے کیمپ میں لے جانے کے بعد وہ یادو بیلٹ کو مضبوط کرنے میں مصروف ہیں۔

الیکشن کے بعد بھی اکھلیش مین پوری میں سرگرم ہیں

حال ہی میں میڈیا میں شائع ہونے والی کچھ خبروں کے مطابق اکھلیش یادو نے دسمبر کے مہینے میں مین پوری میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کیا۔ اگلے دن کشنی میں پارٹی والوں کے درمیان رہے۔ 14 دسمبر کو اپنے حلقہ انتخاب


کرہل میں قیام کیا۔ 23 دسمبر کو جسونت نگر میں کارکنوں سے خطاب کیا۔ اس کے بعد کرسمس پر مین پوری میں ایک تقریب میں شرکت کی۔ اس کے بعد دوبارہ مین پوری میں ایک پروگرام میں شرکت کی۔

سیاسی ماہرین کے مطابق ایس پی کے بانی ملائم سنگھ نے اپنے حلقے کو مضبوط کرنے کے لیے سخت محنت کی۔ مین پوری کے آس پاس کے لوگ اپنا علاقہ چھوڑ کر لکھنؤ اور دہلی میں ملتے تھے۔ ملائم ان کے مسائل سنتے اور حل کرتے۔ لوگوں سے ان کا ذاتی رابطہ ہی ان کی طاقت تھا۔ اسی لیے انہوں نے اٹاوہ، قنوج، فیروز آباد جیسے یادو اکثریتی علاقوں میں اپنی پارٹی کو مضبوط رکھا۔ اکھلیش شاید 2024 میں ان علاقوں میں زیادہ وقت نہیں گزار سکیں گے، اسی لیے وہ ملائم کی غیر موجودگی کے بعد اپنی خالی جگہ کو پرکرنے اور زیادہ سے زیادہ وقت یہاں گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ایس پی ہر طرح سے بی جے پی سے لڑنے کو تیار – آشوتوش ورما

ایس پی کے قومی ترجمان ڈاکٹر آشوتوش ورما کا کہنا ہے کہ لیڈر کے زمانے سے ہی لوگ فیروز آباد، ایٹہ، مین پوری، اٹاوہ، قنوج جیسے علاقوں سے پیار دیتے رہے ہیں۔ 2014 اور 2019 میں ہمیں ان علاقوں میں یقینی طور پر کچھ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ لیکن ہمارے قومی صدر (اکھلیش یادو) خود ان علاقوں میں جا کر اس نقصان کی تلافی کر رہے ہیں۔ یہاں کے لوگوں سے ملاقات کی۔ ان علاقوں کے علاوہ وہ جھانسی، جالون بھی جا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس الیکشن میں ایس پی ہر طرح سے مضبوط ہو کر بی جے پی کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔

یادو لینڈ پر بی جے پی کی مداخلت بڑھ رہی ہے

سینئر سیاسی تجزیہ کار پی این دویدی کا کہنا ہے کہ 2014 سے بی جے پی ملائم کے گڑھ یادو لینڈ میں مسلسل اپنی مداخلت بڑھا رہی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2019 میں نہ صرف یادو اکثریتی علاقوں پر بی جے پی نے قنوج، فیروز آباد جیسے علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ اس کے ساتھ ان کے سب سے مضبوط علاقے آبائی ضلع اٹاوہ میں بھی کمل کو کھلایا گیا ہے۔ پچھلے الیکشن میں بی جے پی نے ان تمام مضبوط لیڈروں کو اپنے ساتھ ملا لیا ہے جو ایس پی سے ناراض تھے۔ تنظیم کے ساتھ ساتھ انہیں سیاسی میدان میں لے کر ایک نیا پیغام دینے کا کام بھی کیا ہے۔ اس کا کچھ فائدہ بی جے پی کو بھی ہوا ہے۔

ملائم سنگھ کی موت کے بعد بی جے پی نے ان کے شاگرد رگھوراج سنگھ شاکیا کو مین پوری سے میدان میں اتارا۔ اس کے ساتھ ہی ایس پی نے اس ضمنی انتخاب کو لے کر اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کی۔ تمام تنازعات کو بھلا کر اکھلیش یادو نے نہ صرف اپنے چچا شیو پال کا ساتھ دیا بلکہ ضمنی انتخابات سے دور رہنے کی روایت کو ختم کیا اور گھر گھر جا کر انتخابی مہم چلائی۔ اسے کامیابی بھی ملی۔ اکھلیش چاہتے ہیں کہ مین پوری سے جلنے والا شعلہ اب کم نہ ہو، اس لیے وہ یادو لینڈ کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں۔ 2024 میں اس میں کتنی کامیابی ملے گی یہ تو وقت ہی بتائے گا۔

-بھارت ایکسپریس

Also Read