سپریم کورٹ
Supreme Court: سپریم کورٹ آئین کے دیباچے سے ‘سیکولر’ اور ‘سوشلسٹ’ کے الفاظ کو ہٹانے کا مطالبہ کرنے والی درخواستوں پر اگلے ماہ سماعت کرے گا۔ ابتدائی طور پر عدالت نے درخواستوں پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ الفاظ آئین کی بنیادی روح کے مطابق ہیں۔ تاہم بعد میں عدالت نے کہا کہ وہ 18 نومبر سے شروع ہونے والے ہفتے میں درخواست گزاروں کی تفصیل سے سماعت کرے گی۔
سپریم کورٹ میں دائر 3 درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ یہ الفاظ 1976 میں 42ویں آئینی ترمیم کے ذریعے تمہید میں شامل کیے گئے تھے۔ اس وقت ایمرجنسی تھی۔ اپوزیشن لیڈر جیل میں تھے۔ یہ الفاظ بغیر کسی بحث کے سیاسی وجوہات کی بنا پر تمہید میں ڈالے گئے۔
درخواست گزار کے وکیل نے یہ دلیل دی
عرضی گزار بلرام سنگھ کے وکیل وشنو جین اور عرضی گزار اشونی اپادھیائے نے بھی کہا کہ دستور ساز اسمبلی نے کافی بحث کے بعد فیصلہ کیا تھا کہ لفظ ‘سیکولر’ تمہید کا حصہ نہیں ہوگا۔ اس پر جسٹس سنجیو کھنہ نے، جو 2 ججوں کے بنچ کی صدارت کر رہے تھے، کہا – “کیا آپ نہیں چاہتے کہ ہندوستان سیکولر رہے؟ ہندوستان میں سیکولرزم فرانس میں رائج تصور سے مختلف ہے۔ جب دستور ساز اسمبلی میں بحث ہو رہی تھی، وہ ایک غیر ملکی تھا ہندوستان میں سیکولرزم کو بھی آئین کا اٹوٹ انگ قرار دیا گیا ہے۔
سبرامنیم سوامی نے بھی اپنے خیالات کا کیا اظہار
اس پر تیسرے عرضی گزار سبرامنیم سوامی نے کہا کہ عدالت کیس کی تفصیل سے سماعت کرے۔ واضح رہے کہ تمہید کو دستور ساز اسمبلی نے 26 نومبر 1949 کو قبول کیا تھا لیکن اسے 1976 میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اس ترمیم کے بعد بھی تمہید میں لکھا ہے کہ اسے 26 نومبر 1949 کو قبول کیا گیا تھا۔ ججز نے اتفاق کیا کہ پرانی تاریخ کو برقرار رکھتے ہوئے نئی چیزیں شامل کرنے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں- Farooq Abdullah On Pakistan: فاروق عبداللہ پاکستان پر برہم، بولے 75 سال میں کشمیر پاکستان نہ بنا تو اب کیا بنے گا؟
وکلاء نے لفظ سوشلزم کو ہٹانے کے حوالے سے یہ دلیل دی
سماعت کے دوران یہ بھی اٹھایا گیا کہ ‘سوشلزم’ ایک طرح کا سیاسی نظریہ ہے۔ ہر پارٹی کا سربراہ عوامی نمائندہ بننے کے بعد آئین پر حلف اٹھاتا ہے۔ ہر نظریے کے لوگوں کو سوشلسٹ ہونے کا حلف دلانا غلط ہے۔ اس پر جسٹس کھنہ نے کہا کہ سیاسی نظریے کے بجائے ‘سوشلزم’ کو اس طرح بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ آئین سماج کے ہر طبقے کو مساوی حقوق دیتا ہے۔
-بھارت ایکسپریس