وزیر اعظم مودی
Uniform Civil Code Bill: لوک سبھا انتخابات سے پہلے مرکز کی مودی حکومت یکساں سول کوڈ کو لے کر بڑی پیش رفت کرنے جا رہی ہے۔ ذرائع کے مطابق مرکزی حکومت آئندہ مانسون اجلاس میں پارلیمنٹ میں یکساں سول کوڈ بل پیش کر سکتی ہے۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں یکساں سول کوڈ بل لانے کی تیاری کر لی ہے۔ یکساں سول کوڈ قانون سے متعلق بل پارلیمانی کمیٹی کو بھی بھیجا جا سکتا ہے۔ یکساں سول کوڈ کے حوالے سے ارکان پارلیمنٹ کی رائے جاننے کے لیے 3 جولائی ک اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ اس معاملے پر لاء کمیشن، قانونی امور کے محکمہ اور قانون ساز محکمے کے نمائندوں کو بلایا گیا ہے۔ 14 جون کو ان تینوں محکموں کے نمائندوں کو لا کمیشن نے یکساں سیول کوڈ پر عام لوگوں سے تجاویز طلب کرنے کے معاملے پر بلایا ہے۔
یونیفارم سول کوڈ کیا ہے؟
یکساں سول کوڈ میں تمام مذاہب کے لیے قانون کا نظام ہوگا۔ ہر مذہب کا اپنا پرسنل لا ہوتا ہے جس میں شادی، طلاق اور جائیداد کے لیے اپنے قوانین ہوتے ہیں۔ یو سی سی کے نفاذ سے تمام مذاہب کے ماننے والوں کے مقدمات صرف سول قوانین کے تحت ہی حل کئے جائیں گے۔ یوسی سی کا مقصد شادی، طلاق، گود لینے، جانشینی اور جائیداد کے حقوق سے متعلق قوانین کو ہموار کرنا ہے۔
وزیراعظم نے خود ذکر کیا
کچھ دن پہلے، وزیر اعظم نریندر مودی نے بھوپال میں یکساں سول کوڈ (یو سی سی) کا مسئلہ اٹھایا،جس کے بعد سے پورے ملک میں اس پر بحث شروع ہوگئی ۔ وزیر اعظممودی نے اپنے خطاب میں کہا تھا۔ ہندوستان کا آئین بھی شہریوں کے مساوی حقوق کی بات کرتا ہے۔ سپریم کورٹ بار بار یکساں سول کوڈ (یو سی سی) لانے کا کہہ چکی ہے۔ لیکن یہ ووٹ بینک بھوکے لوگ ووٹ بینک کی سیاست کرتے ہوئےمسلمانوں کا استحصال کیا لیکن ان پر کبھی بات نہیں کی گئی۔ انہیں آج بھی مساوی حقوق نہیں ملے۔ ہندوستان کے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو سمجھنا ہوگا کہ کون سی سیاسی جماعتیں ان کو مشتعل کرکے سیاسی فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ یکساں سول کوڈ کے نام پر لوگوں کو اکسانے کا کام کیا جا رہا ہے۔ اگر ایک گھر میں ایک رکن کے لیے ایک اور دوسرے کے لیے دوسرا قانون ہو تو کیا گھر چل سکے گا؟ تو ایسے دوہرے نظام کے ساتھ ملک کیسے چلے گا؟
مسلم ممالک میں روایتی طور پر شرعی قانون موجود ہے، جو مذہبی تعلیمات، طریقوں اور روایات سے ماخوذ ہے۔ ان قوانین کی تشریح فقہاء نے عقیدے کی بنیاد پر کی ہے۔ تاہم جدید دور میں اس قسم کے قانون میں یورپی ماڈل کے مطابق کچھ ترامیم کی جا رہی ہیں۔ دنیا کے اسلامی ممالک میں عام طور پر روایتی شرعی قوانین پر مبنی شہری قوانین ہوتے ہیں۔ ان ممالک میں سعودی عرب، ترکی، پاکستان، مصر، ملائیشیا، نائجیریا وغیرہ شامل ہیں۔ ان تمام ممالک میں تمام مذاہب کے لیے یکساں قوانین ہیں۔ کسی خاص مذہب یا برادری کے لیے کوئی الگ قانون نہیں ہے۔ ان کے علاوہ اسرائیل، جاپان، فرانس اور روس میں مشترکہ سول کوڈ یا کچھ معاملات کے لیے مشترکہ دیوانی یا فوجداری قوانین ہیں۔ یورپی ممالک اور امریکہ میں ایک سیکولر قانون ہے، جو تمام شہریوں پر یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے، چاہے ان کا کوئی بھی مذہب ہو۔
سوِل قانون کے اصول سب سے پہلے روم میں بنائے گئے۔ رومیوں نے ایک ضابطہ تیار کرنے کے لیے اصولوں کا استعمال کیا جس میں یہ طے کیا گیا کہ قانونی مسائل کا فیصلہ کیسے کیا جانا ہے۔ فرانس میں دنیا کے مشہور سول کوڈز میں سے ایک ہے۔
بھارت ایکسپریس۔