سبز انقلاب کے بعد کی دنیا میں پنجاب کی ثقافتی نشاۃ ثانیہ
Cultural Renaissance of Punjab: تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں، اسے اپنانا اور تیار کرنا ضروری ہے۔ سبز انقلاب، جو 1960 کی دہائی میں پوری دنیا میں پھیل گیا، اپنے ساتھ نئے زرعی طریقے اور فصلوں کی پیداوار میں زبردست اضافہ لے کر آیا۔ پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ کے ایک حالیہ مطالعے کے مطابق، ان تبدیلیوں نے صرف زراعت کو متاثر نہیں کیا بلکہ انہوں نے ثقافتی تبدیلیوں کا ایک سلسلہ شروع کیا جس نے پنجاب کے دیہاتیوں کی زندگیوں کو بہتر بنایا۔
سبز انقلاب کے بعد پنجابی ثقافتی تبدیلی کے عنوان سے یہ مطالعہ برنالہ ضلع کے بھوتنا گاؤں پر مرکوز ہے، جہاں محققین نے کمیونٹی کے سماجی و اقتصادی تانے بانے میں ایک مثبت تبدیلی کا مشاہدہ کیا۔ سرکردہ محقق بلونت سنگھ بتاتے ہیں کہ اس ثقافتی تبدیلی کی بنیاد صوبے کے سماجی و ثقافت کے معاشی انتظام پر ہے، جس پر سبز انقلاب کا خاصا اثر پڑا ہے۔
زراعت کو پنجاب کی معیشت کا بنیادی محور ہونے کی وجہ سے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ نئے زرعی طریقوں نے لوگوں کی زندگیوں پر اتنا گہرا اثر ڈالا ہے۔ مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ بھوتنا گاؤں نے نہ صرف جغرافیائی طور پر ترقی کو اپنایا ہے بلکہ سماجی طور پر بھی ترقی کی ہے۔ گاؤں کی گلیاں اب پکی ہو چکی ہیں، اور جاٹ خاندانوں کے 50% نے اپنے پرانے مکانات کو جدید کوٹھیوں میں تبدیل کر دیا ہے، جو حالیہ دہائیوں میں ہونے والی ترقی کو ظاہر کرتا ہے۔
سبز انقلاب کے ذریعے آنے والی ثقافتی تبدیلیوں نے دیہاتیوں کو بہتر بنیادی ڈھانچے اور زندگی کے حالات کے ساتھ بہتر معیار زندگی سے لطف اندوز ہونے کا موقع دیا ہے۔ یہ پنجابی عوام کی موافقت اور لچک کا منہ بولتا ثبوت ہے، جنہوں نے تیزی سے تبدیلی کے ذریعے درپیش چیلنجز کا کامیابی سے مقابلہ کیا اور اس کے لیے مضبوط طور پر ابھرے۔
اگرچہ اپنے ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنا اور اس کی قدر کرنا ضروری ہے، لیکن ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ تبدیلی ناگزیر ہے۔ بھوتنا گاؤں کی کہانی ایک متاثر کن مثال کے طور پر کام کرتی ہے کہ کس طرح تبدیلی کو اپنانا ایک روشن مستقبل کی طرف لے جا سکتا ہے۔ آئیے ہم اس سبق کو دل سے لیں، اور مزید خوشحال اور ترقی یافتہ پنجاب کے لیے کام جاری رکھیں۔
-بھارت ایکسپریس