برٹن بولاگ
سونل پٹیل اور رشمی پٹنہ سے تعلق رکھنے والی خاتون کاروباری پیشہ ور ہیں جنہوں نے امریکی محکمہ خارجہ کے اکیڈمی فار ویمن انٹرپرینرس(اے ڈبلیو ای) پروگرام میں حصہ لینے کے بعد اپنے کاروبار کو وسعت دی ہے۔ ان دونوں نے حال ہی میں حکومت بہار کے اسٹارٹ اپ پالیسی پروگرام سے بلا سود قرض کے طور پر10 لاکھ روپئے فی کس سرمایہ بھی حاصل کی ہے۔ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ کاروباری افراد کسی ملک کی معاشی ترقی کے لیے اہم ہیں اور یہ کہ صنفی مساوات اور جامع ترقی کو رفتار دینے میں خواتین کاروباری پیشہ وروں کا اہم کردار ہے، امریکی محکمہ خارجہ نے تربیت اور رہنمائی کے ذریعے کاروباری پیشہ وروں اور ابتدائی مرحلے کے کاروباریوں کو بااختیار بنانے کے لیے اے ڈبلیو ای پروگرام شروع کیا۔
۲۰۱۹ء سے اب تک اے ڈبلیو ای نے ۸۰ ملکوں میں ۱۶ ہزار سے زائد خواتین کو معلومات، نیٹ ورکس اور کامیاب کاروبار شروع کرنے اور اسے وسعت دینے کے لیے درکار رسائی اور افرادی قوت میں خواتین کی بڑھتی ہوئی شرکت کو یقینی بناکر بااختیار بنایا ہے۔ ۲۰۲۱ءکے ایک جائزے سے پتہ چلا ہے کہ اے ڈبلیو ای پروگرام مکمل کرنے والی ۷۴ فی صد خواتین نے اپنی کاروباری آمدنی میں اضافے کا مشاہدہ کیا جب کہ ۲۹ فی صد نے اسی سے حوصلہ پاکر مزید لوگوں کو روزگار فراہم کیا۔
سفرکے دوران کھانے کی سہولت
کولکاتا کے امریکی قونصل جنرل کی اے ڈبلیو ای ٹریننگ میں حصہ لینے سے پہلے سونل پٹیل پٹنہ میں ایک مینیجمنٹ کمپنی کی مالکہ تھیں۔ ان کی کمپنی مقامی کاریگروں کو متحدہ عرب امارات میں اپنی مصنوعات فروخت کرنے میں مدد پہنچایا کرتی تھی ۔ پیشے سے ’لائف اسکلس ٹرینر ‘پٹیل اس سے قبل دبئی، ممبئی اور بہار میں کارپوریٹ ٹرینر کے طور پرخدمات انجام دے چکی ہیں۔
انہوں نے نومبر ۲۰۲۱ءمیں ۱۰ ماہ کی اے ڈبلیو ای ٹریننگ میں ایک نئے کاروبارکی مالکہ کی حیثیت سے شمولیت اختیار کی تھی۔ اس وقت ان کے پاس کوئی واضح کاروباری منصوبہ نہیں تھا۔ تربیت کے دوران انہیں احساس ہوا کہ ان کی موجودہ کمپنی شاید مزید ترقی نہ کر پائے، لہذا انہوں نے ریلوے میں کھانے پینے کی مصنوعات کی فراہمی کے شعبے میں منتقلی کا فیصلہ کیا۔
طویل عرصے سے یہ محسوس کرنے کے بعد کہ بھارتی ٹرینوں میں مسافروں کے لیے دستیاب کھانے میں بہتری کی کافی گنجائش ہے، پٹیل نے اپنی اے ڈبلیو ای تربیت کے دوران ریل فوڈیز کے لیے ایک کاروباری منصوبہ بنایا۔ ریل فوڈیز سفر کے دوران مسافروں کو براہ راست مختلف قسم کے بہتر کھا نوں کی تیزی سے فراہمی کا وعدہ کرتی ہے۔ ۴۰۰ سے زیادہ ریستورانوں نے ۲۰۰ سے زیادہ اسٹیشنوں پر کھانوں کی دستیابی کے لیے دستخط کیے ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق بہار سے ہے۔
مسافر براہ راست فون کرکے یا ہرریلوے اسٹیشن پر موجود ریستورانوں کے مینوپیش کرنے والی ریل فوڈیز کی ویب سائٹ کے ذریعہ کھانے کا آرڈر دیتے ہیں ۔ وہ اسٹیشن پر پہنچنے سے ایک گھنٹہ پہلے تک آرڈر دے سکتے ہیں اور آن لائن یا کھانا ملنے پرادائیگی کرسکتے ہیں۔ ریل فوڈیز کے ساتھ آٹھ افراد کام کرتے ہیں جن میں سے نصف سافٹ ویئر کے کام میں مصروف ہیں۔ ان کی ذمہ داریوں میں ایک وقف شدہ ایپ کی تخلیق بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ باقی افرادبازارکاری پرتوجہ دیتے ہیں۔پٹیل کہتی ہیں کہ اگرچہ اب بھی ہم لوگ ابتدائی مرحلے میں ہیں لیکن ’’کھانا پہنچانے کی ہماری خدمت کو مثبت رد عمل مل رہا ہے۔‘‘ کمپنی کا پانچ سالہ ہدف پورے ملک میں توسیع کرنا اور متعدد ریلوے اسٹیشنوں کی خدمت کرنے والے ’’کلاؤڈ کچنس‘‘بنانا اور مسابقتی قیمتوں پر معیاری کھانے فراہم کرنا ہے۔
سونل پٹیل کے لیے اے ڈبلیو ای کی تربیت ’’چشم کشا‘‘ ثابت ہوئی۔
وہ کہتی ہیں ’’میں نے سوچا تھا کہ میں ایک اچھی تربیت دہندہ ہوں لیکن تربیت حاصل کرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ کاروبار، مالیات، ملازمت وغیرہ کے معاملے میں (اپنی تربیت میں) بہت ساری چیزوں سے میں ناواقف تھی۔‘‘ مستقبل قریب میں، پٹیل ریل فوڈیزکے ساتھ پارٹ ٹائم کام کرنے والے طلبہ کے لیے سیکھنے کے دوران کمانے (ارن اینڈ لرن) کے ماڈل کے ساتھ اپنا ڈلیوری بیڑا شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں، جس سے پورے ملک میں ہزاروں لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
مقامی ہنر، عالمی بازار
پٹنہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف فیشن ٹیکنالوجی سے گریجویٹ رشمی نے کریئر کا آغاز ایک دستکاری کمپنی میں ایک ڈیزائنر کے طور پر کیا تھا۔ ۲۰۲۰ء کے اوائل میں انہوں نے اپنی دستکاری کمپنی شروع کی لیکن کووِڈ۔۱۹ کی وبا کی وجہ سے انہیں کمپنی کو بند کرنا پڑا۔ ۲۰۲۱ءکے آخر میں انہوں نے اپنی موجودہ کمپنی، ’دھج کرافٹ‘ شروع کی۔ ان کی کمپنی دھاگوں سے دستکاری کی مصنوعات بناتی ہے۔
رشمی کو چار ماہ کی اے ڈبلیو ای ٹریننگ کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ انہوں نے ابتداً جو چیزیں سیکھیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ سرمایہ کاروں سے کس طرح بات چیت کی جائے۔ اس گروپ نے بعد میں مارکیٹنگ، کمپنیوں اور مصنوعات کو برینڈ بنانے سے متعلق تربیت میں شرکت کی۔ تربیت کا اختتام کولکاتہ میں امریکی قونصل جنرل میں بات چیت کے طریقوں پر مشتمل ایک اجلاس کے ساتھ ہوا۔رشمی کا کہنا ہے کہ اے ڈبلیو ای کی تربیت ان کے جیسے چھوٹے کاروباریوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوئی۔ وہ کہتی ہیں ’’میں نے بہت کچھ سیکھا جیسے سرمایہ کاروں کے ساتھ تین منٹ کی بات کیسے تیار کی جائے۔ تربیت نے انہیں ایک نیٹ ورک بنانے میں بھی مدد کی۔ اب میں جانتی ہوں کہ مختلف علاقوں میں مدد کہاں سے حاصل کرنی ہے۔‘‘
’دھج کرافٹ ‘ پاؤں کی ہیئت کی بنیاد پر ضرورت کے مطابق خواتین اور مردوں کے لیے جوتے تیار کرتی ہے۔ رشمی کہتی ہیں ’’ہم میں سے زیادہ تر کے پاؤں چپٹے ہوتے ہیں یا خمیدہ شکل کے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ چوڑے یا مختلف شکل کے ہوتے ہیں۔‘‘دھج کرافٹ کا سیلس پورٹل صارفین سے کہتا ہے کہ وہ چھاپی جا سکنے والی پیمائش شیٹ کا استعمال کرتے ہوئے اپنے سائز بھیجیں یا پاؤں کے مسائل کی ویڈیوز کا اشتراک کریں۔ ان کی ٹیم اب ایک ایسا ایپ تیار کر رہی ہے جس کے ذریعہ اسمارٹ فون کے ویڈیو کیمرے سے پیمائش کی جا سکے۔ دھج کرافٹ کی مصنوعات میں کڑھائی شدہ موجری(ہاتھوں سے بنائی گئی جوتیاں اور سلیپر جنہیں روایتی طور پر شمالی ہند اور پاکستان میں پہنا جاتا ہے)، بغیر ایڑی والےجوتے، ہلکی چپل، روایتی جوتے ، خواتین کی سینڈل، ایڑی والے جوتے اور دیگر جوتے شامل ہیں۔
یہ اسٹارٹ اپ کمپنی جوتے تیار کرنے کے لیے ری سائیکل شدہ پلاسٹک ،کھادی اور پٹسن جیسے قدرتی ریشوں کا استعمال کرتی ہے۔ یہ جوتے آف لائن اور آن لائن دونوں ہی قسم کی دکانوں میں فروخت کیے جاتے ہیں۔کمپنی میں فی الحال تین کاریگر اور پانچ دیگر ملازمین ہیں۔ رشمی کہتی ہیں ’’آن لائن تشہیر میں تیزی آ رہی ہے، اور کاروبار بڑھ رہا ہے۔ گاہکوں کا رد عمل ابتدا ہی سے مثبت رہا ہے کیونکہ ہماری مصنوعات چلنے یا گاڑی چلانے کے دوران پاؤں کے درد کے مسئلے کو حل کرتی ہیں، یا ان معیاری جوتوں سے ملنے والے درد کے مسئلے کا حل بھی پیش کرتی ہیں جو ان کے چوڑے پیروں کے مطابق نہیں ہوتے۔‘‘
بشکریہ اسپَین میگزین، شعبہ عوامی سفارت کاری، پریس آفس، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی