Bharat Express

Preventing Food waste: غذائی  بربادی کو روکنا

سَپت کِرشی کا جدید اسٹوریج چیمبر کسانوں اور دکانداروں کو ۳۰ دن تک پیداوار کو تازہ رکھ کر نقصان سے بچانے میں مدد کرتا ہے۔ جدید اسٹوریج چیمبر کے معماروں کو نیکسَس اسٹارٹ اپ ہب سے راہنمائی حاصل ہوئی ۔

تحریر: اسٹیو فاکس (کیلیفورنیا کے ونچورا میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکاراورنامہ نگار ہیں)

بھارت میں پھلوں اورسبزیوں کا ایک بڑا حصہ ان کو توڑے جانے سے لے کے بازار تک پہنچنے کے درمیان برباد ہو جاتا ہے۔ یہ خاص طور پر چھوٹے کسانوں اور ریڑھی پٹری والوں کے لیے ایک سنگین مسئلہ ہے۔ اس طرح کے زیادہ تر لوگ پھلوں اور سبزیوں کی حفاظت کے لیے سرد خانے کے استعمال کے متحمل نہیں ہوتے اور انہیں اضافی اور باسی چیزوں کو پھینک دینا پڑتا ہے جس کی وجہ سے انہیں روزانہ کی بنیاد پر نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔

سبزیوں اورپھلوں کی بربادی اوراس کے نتیجے میں ہونے والے مالی نقصان نے نِکی کمار جھا کو اُس وقت مغموم کر دیا جب وہ بہار کی نالندہ یونیورسٹی سے ایکولوجی اینڈ انوائرو نمینٹل اسٹڈیز میں ماسٹر ڈگری حاصل کر رہے تھے۔ نِکی کہتے ہیں ’’میرا تعلق بہار کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہے۔ بہت سے لوگوں نے ٹی وی پر کسانوں کے ذریعہ پھل اور سبزیاں سڑکوں پر پھینکنے کے مناظر دیکھے ہوں گے لیکن میں نے تو پوری پیداوار پھینکے جانے کا درد محسوس کیا ہے۔‘‘

تحریک کا سبب

ابتدائی طور پر نِکی نے ایک آف گرڈ (جس کے چلانے کے لیے بجلی کی فراہمی شرط نہیں ) کولڈ اسٹوریج آلہ تیار کیا لیکن اسے بعض تکنیکی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سارے چھوٹے کسانوں اور ریڑھی پٹری والوں کے لیے ریفریجریشن کافی مہنگی  چیزتھی۔ لہٰذا اس صورتحال سے مایوس نِکی نے ایک دن عشائیہ پر اس مسئلہ پر بات کی۔ ان کی بایوٹیکنالوجِسٹ بہن رشمی نے مشورہ دیا کہ کولڈ اسٹوریج کو بہتر بنانے کے بجائے وہ ریفریجریشن کے بغیر پھلوں اور سبزیوں کو محفوظ رکھنے کے طریقے تلاش کر سکتے ہیں۔

سَپت کِرشی سائنٹیفک پرائیویٹ لمیٹڈ کے قیام کے لیے ان لوگوں (بھائی بہن) نے ساتھ مل کر کام کیا۔ ان کی کمپنی ’سبزی کوٹھی‘ نامی آلے تیار کرتی ہے جو ہلکا، آسانی سے یکجا کیا جانے والا اور توانائی کی بچت کرنے والا اسٹوریج چیمبر ہے جو صرف ۲۰ واٹ بجلی اور چند لیٹر پانی کا استعمال کر کے پھلوں اور سبزیوں کو ۳۰ دن تک تازہ رکھ سکتا ہے۔ سَپت کِرشی، نیکسس اسٹارٹ اپ ہب میں ۱۶ ویں گروپ کا حصہ تھا۔نیکسَس امریکی سفارت خانے کا ایک پروگرام ہے جو نئے کاروباری پیشہ وروں  کو اپنی مصنوعات کو فروغ دینے اور اسے بازار میں فروخت کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔

رشمی، جنہیں نِکی ’’کمپنی کی ریڑھ کی ہڈی‘‘ قرار دیتے ہیں، اب بھی لیبارٹری میں تحقیقی خدمات انجام دیتی ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ  اسٹوریج چیمبرس کی تیاری کی نگرانی بھی کرتی ہیں۔ رشمی بتاتی ہیں ’’جب ہم نے اپنی فیکٹری قائم کرنے کا فیصلہ کیا تو میرے بھائی نے مجھے وہاں اپنی لیباریٹری کے قیام کے لیے کہا تاکہ میں کام کاج پر نظر رکھ  سکوں۔ میں نے انتظامی ذمہ داری  سنبھال تو لی مگر میں اپنے وقت کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ میں دن کے پہلے نصف حصے میں کمپنی کا کام کاج  دیکھتی ہوں اور باقی حصہ اپنے لیب میں گزارتی ہوں۔‘‘

چھوٹا آلہ، بڑا فرق

سبزی کوٹھی، جو شمسی توانائی پر بھی چل سکتا ہے، لکڑی کے ٹھیلے، کسی ای رکشہ یا پھر کسی ٹرک پر بھی نصب کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایتھیلین کے انحطاط کے اصول پر کام کرتے ہوئے چیمبر کے اندر جدید ترین ٹیکلنالوجی کے ساتھ ایک اعلیٰ مرطوب اور تقریباً جراثیم سے پاک ایک الگ تھلگ ماحول بنا کر کام کرتا ہے۔ ایتھیلین پھل اور سبزیوں کے پکنے پر پیدا ہوتا ہے اور  اس کے سر ان کے انحطاط کا الزام بھی ہے۔

سبزی کوٹھی نے چھوٹے کسانوں اور ریڑھی پٹری والوں کے لیے ایک بڑا فرق پیدا کر دیا ہے۔ کانپور میں پھل اور سبزیاں فروخت کرنے والے منوج کہتے ہیں ’’جب میرے پاس یہ آلہ نہیں تھا تو ہمیں پھلوں اور سبزیوں کو جلدی یا دیر رات تک فروخت کر دینا پڑتا تھا تاکہ وہ خراب نہ ہوجائیں۔ چونکہ میں نے سبزی کوٹھی نصب کر لیا ہے لہٰذا میں گرمی میں بھی سبزیاں فروخت کر سکتا ہوں۔ اس کی بدولت سبزیاں تازہ اور ٹھنڈی رہتی ہیں۔‘‘

چھوٹے کسانوں اور ریڑھی پٹری والوں کے لیے ایک سبزی کوٹھی چیمبر کی قیمت ساڑھے بارہ ہزار روپے ہے لیکن نکی اور رشمی اس کی قیمت دس ہزار روپے سے کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بھارت کے شمالی اور مشرقی حصوں میں جہاں سَپت کِرشی نے اب تک توجہ مرکوز کی ہے، ۷۰۰ سے زیادہ چیمبر فروخت ہو چکے ہیں۔ اب یہ اسٹارٹ  اپ اپنی پیداوار کو ملک بھر میں لے جانے اور انہیں برآمد کرنے کے مواقع تلاش کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

ماحول دوست ایجاد

نِکی بتاتے ہیں کہ سبزی کوٹھی کا اثر غذائی اشیا ءکے ذخیرے سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ پھلوں اور سبزیوں کو محفوظ رکھنے سے میتھین جیسی گرین ہاؤس گیسوں کی مقدار، جو پھلوں اور سبزیوں کے خراب ہونے سے پیدا ہوتی ہے، کم ہو جاتی ہے اور اس طرح آب و ہوا کی تبدیلی کا مقابلہ کرنے میں مدد ملتی ہے۔ سبزی کوٹھی کا استعمال کاربن کے اخراج کو بھی کم کرتا ہے، آبی وسائل کو محفوظ کرتا ہے اور پائیدار طریقوں کو فروغ دیتا ہے۔ ان تمام  خوبیوں نے سَپت کِرشی کو۲۰۲۲ء میں ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ کے ذریعہ ’کلائمیٹ سالور ایوارڈ ‘سے سرفراز ہونے میں مدد کی۔

سَپت کِرشی کے معاونین میں امریکی سفارت خانہ نئی دہلی کا نیکسس اسٹارٹ اپ ہب، حکومت ہند کا اسٹارٹ اپ انڈیا پروگرام اور آئی آئی ٹی کانپور میں اسٹارٹ اپ انکیوبیشن اینڈ انوویشن سینٹر شامل ہیں۔نِکی اپنی کمپنی کی کامیابی کے لیے جہاں ایک جانب شکر گزار ہیں، دوسری جانب انہوں نے اپنی جڑوں کو بھی فراموش نہیں کیا ہے۔

وہ کہتے ہیں ’’جب میرے خریدار مجھے فون کر کے کہتے ہیں کہ اس اسٹوریج چیمبر کی وجہ سے میں نے آج ۴۰۰ روپےزیادہ کمائے ہیں تو سَپت کِرشی کے شریک بانی کی حیثیت سے مجھے طمانیت کا احساس ہوتا ہے اور بہت اچھی نیند آتی ہے ۔ میں اس خوشی کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ یہ خوشی سبزی کوٹھی فروخت کرنے سے کہیں بڑھ کر ہے۔‘‘

اسٹیو فاکس کیلیفورنیا کے ونچورا میں مقیم ایک آزاد پیشہ قلمکار، ایک اخبار کے سابق ناشر اور نامہ نگار ہیں۔

بشکریہ  سہ ماہی اسپَین میگزین، شعبہ عوامی سفارت کاری، پریس آفس، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی

    Tags: