Bharat Express

Unemployment Among Chinese Urban: چین سماجی عدم استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے کیونکہ بے روزگاری تاریخی سطح تک بڑھ رہی ہے

بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق، 16 سے 24 سال کی عمر کے چینی شہری باشندوں میں بے روزگاری مارچ میں تیزی سے بڑھ کر 19.6 فیصد ہو گئی جو فروری میں 18.1 فیصد تھی

چین سماجی عدم استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے کیونکہ بے روزگاری تاریخی سطح تک بڑھ رہی ہے

Unemployment Among Chinese Urban: جیو پولیٹک نے رپورٹ کے مطابق چین سماجی عدم استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے کیونکہ بے روزگاری تاریخی سطح پر پہنچ رہی ہے۔نوجوانوں کی بے روزگاری کی شرح تاریخی بلندی کے قریب پہنچ رہی ہے، مختلف چیلنجز جیسے قرضوں کے بوجھ اورعالمی ترقی کی رفتار میں کمی، اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ چین کا معاشی نقطہ نظر صفر کوووڈ پالیسی کے تباہ کن اثرات کے بعد بھی غیر یقینی ہے۔ غیرمساوی بحالی کے علاوہ نوجوانوں کی مسلسل بے روزگاری ایک تشویش کا باعث بنی ہوئی ہے، قابل ذکر بات یہ ہے کہ خاص طور پر اس سال ریکارڈ 11.58 ملین طلباء یونیورسٹیوں اورکالجوں سے فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔ جیو پولیٹک نے رپورٹ میں واضح کیا ہے۔

بیورو آف اسٹیٹسٹکس کے مطابق 16 سے 24 سال کی عمر کے چینی شہری باشندوں میں بے روزگاری مارچ میں تیزی سے بڑھ کر 19.6 فیصد ہو گئی ہے، جو فروری میں 18.1 فیصد تھی، قابل ذکر بات یہ ہے کہ  گزشتہ جولائی میں ریکارڈ بلند ترین سطح کے قریب تھی۔  جب کہ یہ  19.9 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ جیو پولیٹک نے رپورٹ میں یہ واضح کیا ہے کہ نوجوانوں کی مسلسل بے روزگاری کے پیچھے سست مینوفیکچرنگ اور کمزور آئی ٹی سیکٹر دو قوتیں ہو سکتی ہیں۔

قابل ذکربات یہ ہے کہ سماجی نقل وحرکت کے بارے میں خدشات اب کچھ چینی نوجوانوں کو کیریئراورخاندان کے بارے میں سماجی توقعات کے خلاف پیچھے دھکیلنے پرمجبور کررہے ہیں۔ ایک معاملہ “لائنگ فلیٹ” تحریک ہے۔ جو ایک طویل مدتی انعام کے لیے محنت کرنے کی بجائے، حاصل کرنے کے لیے کم سے کم کام کرنے کی طرف راغب کرتا ہے۔ جس کی ضمانت نہیں ہے۔

کچھ چینی نوجوان جان بوجھ کر پے چیک سے تنخواہ پر زندگی گزار رہے ہیں، جو خود کو “مون لائٹ کلان” کہتے ہیں- شرکاء اب طویل مدتی مایوسی کی تلافی کے لیے بیرون ملک سفر جیسی آسائشیں خریدنے پرمجبور ہورہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نوجوانوں کی غیر پائیدار بے روزگاری سماجی استحکام کے لیے خطرہ بن سکتی ہے، جیو پولیٹک نے اس کی  رپورٹ شائع کی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہےکہ  گھریلو فروخت میں کمی آ رہی ہیں اورامریکہ اور چین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی ایپل جیسے بین الاقوامی الیکٹرانکس برانڈز کو “میڈ اِن چائنا” کو کم کرنے اور پیداوار کو چین سے باہر منتقل کرنے پر مجبور کر رہی ہے۔

یہ چین کی ٹیکنالوجی مینوفیکچرنگ انڈسٹری کو بھارت، ویتنام اور تھائی لینڈ سے مقابلے آرائی ہے، جیو پولیٹک نے رپورٹ میں اس بات کی واضاحت کی ہے۔ چین کی سیمی کنڈکٹر انڈسٹری کو روکنے کے لیے امریکی حکومت کے اقدام نے کمیونسٹ پارٹی کے تکنیکی انڈسٹری کو بھی نقصان پہنچاہے کیونکہ چینی مینوفیکچررز کو جدید ترین سلیکون چپس بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی تک رسائی سے انکار کر دیا گیا ہے۔

  -بھارت ایکسپریس

Also Read