امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے بنگلہ دیش کو دی جانے والی تمام امداد روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) نے بنگلہ دیش میں اپنے تمام پروجیکٹ بند کرنے کا کہا ہے۔ امریکہ کے اس اقدام کو بنگلہ دیش کے لیے بڑاجھٹکا قرار دیا جا رہا ہے۔ شیخ حسینہ کی حکومت کی بغاوت کے بعد بنگلہ دیش کی معیشت مسلسل خراب ہو رہی ہے۔ لوگ بے روزگاری کے بحران سے نبرد آزما ہیں۔
امریکی سرمایہ کاری بنگلہ دیش کی معیشت کے لیے ہمیشہ اہم رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں 2020 تک کل امریکی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری تقریباً 3 بلین ڈالر تھی۔ امریکی کمپنیاں بنگلہ دیش کے ٹیکسٹائل، توانائی، زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں بڑے سرمایہ کار ہیں۔ ٹیکسٹائل کی صنعت امریکہ کے لیے سرمایہ کاری کے بڑے شعبوں میں سے ایک ہے کیونکہ بنگلہ دیش دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ٹیکسٹائل برآمد کنندہ ہے اور امریکہ اس کی سب سے بڑی منڈیوں میں سے ایک ہے۔
امریکی کمپنیوں نے بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی ہے۔ جس کی وجہ سے بنگلہ دیش میں لاکھوں لوگوں کو روزگار ملا ہے۔ 2020 میں بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل کی تقریباً 20 فیصد برآمدات امریکہ کو گئیں۔اس کے علاوہ امریکی کمپنیوں نے بنگلہ دیش کی توانائی، صحت، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مالیاتی خدمات میں بھی بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔ امریکی کمپنیوں کی سرمایہ کاری بنگلہ دیش کے توانائی کے شعبے کو مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ درحقیقت امریکی سرمایہ کاری بنگلہ دیش کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
اگر امریکہ بنگلہ دیش سے نکل گیا تو کیا ہوگا؟
اگر امریکہ بنگلہ دیش سے اپنی سرمایہ کاری کم کرتا ہے یا نکالتا ہے تو اس کے بنگلہ دیش کی معیشت پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ سب سے پہلے بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل کی صنعت متاثر ہوگی، کیونکہ امریکہ اس کے بڑے برآمد کنندگان میں سے ایک ہے۔ اگر امریکہ اپنی مارکیٹ بند کرتا ہے یا برآمدات پر پابندی لگاتا ہے تو یہ بنگلہ دیش کے لیے بڑا جھٹکا ہو گا۔ اس کی وجہ سے لاکھوں مزدور اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو سکتے ہیں جس سے بنگلہ دیش کی روزگار کی منڈی پر منفی اثر پڑے گا۔
اس کے علاوہ بنگلہ دیش میں امریکی کمپنیوں کی سرمایہ کاری نہ صرف مالیاتی نقطہ نظر سے اہم ہے بلکہ یہ ٹیکنالوجی اور تحقیق میں بھی مددگار ہے۔ بنگلہ دیش میں توانائی کے شعبے میں امریکی سرمایہ کاری سے توانائی کے سستے اور پائیدار ذرائع کی طرف بڑھنے میں مدد ملی ہے۔ اگر یہ سرمایہ کاری کم ہوئی تو بنگلہ دیش کے لیے توانائی کا بحران مزید بڑھ سکتا ہے۔بنگلہ دیش سے امریکہ کا انخلا غیر ملکی سرمایہ کاروں کو بھی الجھا سکتا ہے اور دوسرے ممالک کے لیے سرمایہ کاری کے ماحول کے بارے میں خدشات پیدا کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بنگلہ دیش کی حکومت کو زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کیونکہ امریکی کمپنیوں کی سرمایہ کاری سے بنگلہ دیش کو ڈالر ملتے ہیں، جو غیر ملکی تجارت کے لیے ضروری ہیں۔
درحقیقت بنگلہ دیش کے موجودہ سربراہ محمد یونس کو حزب اختلاف کی جماعت ڈیموکریٹ پارٹی آف امریکہ کا حامی سمجھا جاتا ہے۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور اس پر ہندوؤں پر حملے کا الزام لگایا تھا۔بنگلہ دیش کے حالیہ واقعات کو دیکھ کر بہت سے ماہرین نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ بنگلہ دیش کا معاشی ماڈل بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔ مہنگائی کی شرح 10 فیصد کے قریب پہنچ گئی۔ امریکی امداد بند ہونے سے بنگلہ دیش کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
بھارت ایکسپریس۔
بچاؤ کے کام کے لیے این ڈی آر ایف کی خصوصی مشینیں بھی طلب کی…
وقف بورڈ پر مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے بارے میں، اے آئی ایم آئی ایم کے…
سی ایم آتشی کے علاوہ سابق سی ایم اروند کیجریوال نے بھی ہریانہ حکومت پر…
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شمس اقبال نے کہا کہ اردو…
فلسطین کے صدر محمود عباس اور غزہ کے شہریوں نے بھی ڈونالڈ ٹرمپ کی پیشکش…
جمعیۃ علماء ہند حکومت کے اس فیصلے کو نینیتال ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ دونوں…