اسپورٹس

Saudi Arabia is Becoming the Next Big Destination for Footballers: یورپ سے نکل کر سعودی عرب میں آباد ہو رہی ہے فٹبال کی پرجوش دنیا،کارآمد ثابت ہورہا ہے محمد بن سلمان کا سپورٹس پلان

قریب2014سے 2017 کے درمیان، فٹ بال کی طاقتیں جو یورپ میں تھیں، وہ اب دھیرے دھیرے کم اور ختم ہوتی دکھائی دے رہی ہے چونکہ یوروپ سے بہترین اور بڑے کھلاڑیوں کا سعودی عرب کے مختلف کلب میں جانا  یہ بتارہا ہے کہ فٹبال کی چمکدار اورر پرجوش دنیا یوروپ سے نکل کر عرب میں بسنے جارہی ہے۔حالانکہ چائنیز سپر لیگ (سی ایس ایل) کافی عرصے سے دنیا بھر سے ایسے کھلاڑیوں کوتلاش  اپنے یہاں بھرتی کر رہی تھی لیکن اس عرصے میں لیگ کے کلبوں نے ان لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا شروع کر دیا جن کے اندر اب بھی چند سالوں کیلئے بہترین  فٹ بال باقی ہے۔ جلد ہی، برازیل کے آسکر، رامیرس اور ہلک، ارجنٹائن کے اسٹار کارلوس تیویز اور یہاں تک کہ یانک کاراسکو جیسے کھلاڑی، جو اس وقت بیلجیئم کے لیے اب بھی ایک آنے والا اسٹار سمجھا جاتا تھا، نے یورپی بڑی لیگز میں کھیلنے کے امکانات پر چین کا انتخاب کیا۔

خدشہ یہ تھا کہ چینی لیگ نے کھلاڑیوں کو بڑی رقم کی پیشکش کر کے ٹرانسفر مارکیٹ کو “ہائی جیک” کر لیا تھا۔ یہ خدشات بدستور برقرار ہیں لیکن اب یہ چین نہیں ہے جو یورپی بالادستی کو چیلنج کرتا ہے بلکہ یہ سعودی عرب ہے۔ جو یوروپ کی فٹبال  والے تاج کو چھیننے کی کوشش میں لگا ہے۔  اس سال جون میں، یورپ کے براعظمی فٹ بال کی گورننگ باڈی یو ای ایف اےکے صدر، الیگزینڈر سیفرین نے کہا تھا کہ سعودی عرب کی جانب سے عالمی فٹ بال کے کچھ بڑے ناموں پربھاری رقم  خرچ کرنے کا سلسلہ صرف اس راستے کو کشادہ کررہا ہے جس پر چائنیز سپر لیگ پہلے سے چل رہا تھا۔مجھے لگتا ہے کہ یہ بنیادی طور پر سعودی عرب کے فٹ بال کے لئے ایک غلطی ہے۔ ان کے لیے یہ مسئلہ کیوں ہے؟ کیونکہ انہیں اکیڈمیوں میں سرمایہ کاری کرنی چاہئے، انہیں کوچز لانا چاہئے، اور انہیں اپنے کھلاڑیوں کو تیار کرنا چاہئے۔ ان کھلاڑیوں کو خریدنے کا نظام جس نے ان کا کیریئر تقریباً ختم کر دیا وہ نظام نہیں ہے جو فٹ بال کو ترقی دیتا ہے۔انہوں نے کہاکہ چین میں بھی اسی طرح کی غلطی  کی گئی تھی جب وہ سب ایسے کھلاڑی لائے جو اپنے کیریئر کے اختتام پر تھے۔

ابھی کے لیے، سعودی پرو لیگ اور چائنیز سپر لیگ کے درمیان مماثلت اس قسم کی رقم کے ساتھ ختم ہوتی ہے جو دونوں مقابلوں میں شامل سب سے بڑے کلبوں نے خرچ کی تھی۔  سعودی میں فٹبال کی لہر ایک جاری رجحان ہے، جس میں کرسٹیانو رونالڈو کی لیگ میں آمد گزشتہ سیزن میں بیلن ڈی آر ہولڈر کریم بینزیما، این گولو کانٹے، روبرٹو فرمینو ،سعدیو مانے اور نیمار جیسے اہم کھلاڑیوں کے نام شامل ہیں ۔ چینی لیگ نے بھی اس مرحلے کو دیکھا، حالانکہ وہ کبھی بھی رونالڈو کے قد کے کسی کھلاڑی کو سائن نہیں کرسکی، اور چند سالوں میں اس کے بعد دیوالیہ پن، بدعنوانی کے اسکینڈلز اور ملکی فٹ بال کے معیار میں کوئی واضح بہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔ چین کا زوال واقعی کلب کے مالکان کو واضح ہدایات کی کمی کے ساتھ شروع ہوا کہ وہ کتنی رقم خرچ کر سکتے ہیں۔ حکومت جلد ہی ملک چھوڑ کر کلبوں، کھلاڑیوں اور ایجنٹوں کے بٹوے میں آنے والی رقوم سے گھبرا گئی۔ اگرچہ مستقبل کی پیشین گوئی کرنا خطرناک ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ سعودی اخراجات مضبوط بنیاد پر ہیں۔ یہ ویژن 2030 کا حصہ ہے ۔ ایک سرکاری پروگرام جو اپریل 2016 میں شروع کیا گیا تھا جس کا مقصد ملک کی معیشت کو تیل پر انحصار کرنے کے بجائے متنوع بنانا ہے۔ النصر میں شامل ہونے کے بعد سے صرف رونالڈو کی انسٹاگرام سرگرمی پر ایک نظر یہ ظاہر کرتی ہے کہ ان کھلاڑیوں کے دستخط کرنے سے ملک کو خود کو تفریحی اور سیاحتی مقام کے طور پر پیش کرنے میں کتنی مدد مل رہی ہے۔

بہت تیزی کے ساتھ سعودی عرب کے مختلف فٹبال کلبوں میں بڑے کھلاڑیوں کی آمد سے متعلق تعداد حیران کن ہے۔ برازیل کے سپر اسٹار نیمار کو الہلال نے دو سال کے لیے 200 ملین یورو دیا ہےاور اس طرح وہ سعودی فٹبال کلب الھلال کا حصہ بن گئے ہیں ۔ رونالڈو کے دو سالہ معاہدے کی مالیت 216 ملین یورو سے زیادہ ہے۔ کریم بینزیما کا الاتحاد کے ساتھ دو سالہ معاہدہ 400 ملین یورو کا ہے جبکہ کانٹے اسی کلب کے ساتھ اپنے چار سالہ معاہدے میں 86 ملین یورو سالانہ پر ہیں۔النصر میں رونالڈو کے ساتھ سعدیو مانے34 ملین یوروسالانہ فیس کے ساتھ اپنے کھیل کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

بڑے سودے جو نہیں ہوسکےوہ اس سے بھی زیادہ دماغ کو حیران کرنے والے ہیں۔کیلئن ایمپاپے نے الہلال کی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا تھا جس میں وہ اپنے کلب پیرس سینٹ جرمین کو ریکارڈ 300 ملین یورو کی پیشکش کرنے کے لیے تیار تھے جبکہ اسٹرائیکر نے خود 700 ملین یورو کمائے ہوں گے۔ یہ سب صرف ایک سال کے لیے، جس کے بعد وہ ریال میڈرڈ یا کسی بھی کلب میں شامل ہو سکتے تھے جس کی وہ خواہش کررہے ہیں ۔ اس دوران لیونل میسی نے مبینہ طور پر امریکہ میں ڈیوڈ بیکہم کے انٹر میامی کے لیے کھیلنے کے لیے الہلال کے ساتھ 365 ملین یورو سے زیادہ کے معاہدے کو مسترد کر دیا تھا۔یہ دونوں معاہدے  اب تک کی فٹبال کی تاریخ میں سب سے بڑا معاہدہ اور سب سے بڑا سودا ہونے والا تھا جو سعودی عرب کررہا تھا لیکن ان دونوں نے فی الحال عرب کے کلب کو منع کردیا ہے۔ حالانکہ یہ ماناجارہا ہے کہ دو سال بعد لیونل میسی بھی عرب کے کلب کا حصہ بن سکتے ہیں ۔ سعودی عرب میں فی الحال النصر، الہلال، الاتحاد ،الاہلی، اور الاتفاق جیسے بڑے فٹبال کلب ہیں جہاں اب بڑے بڑے کھلاڑی موجود ہیں ۔ النصر میں رونالڈو اور سعدیو مانے، الہلال میں نیمار، الاتحاد میں  کریم بنجیما جیسے بڑے کھلاڑی جو یوروپ سے نکل کر سعودی عرب  کی اسپورٹس ورلڈ اور سیاحت کو براہ راست فروغ دے رہے ہیں ، جس کی وجہ سے یہ مانا جارہا ہے کہ فٹبال کی پرجوش دنیا یوروپ سے نکل کر عرب میں بستی نظرآرہی ہے۔

بھارت ایکسپریس۔

Rahmatullah

Recent Posts

Supreme Court: حکومت ہر نجی جائیداد پر قبضہ نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ

چیف جسٹس نے کہا کہ آج کے معاشی ڈھانچے (نظام)میں نجی شعبے کی اہمیت ہے۔…

1 hour ago

Donald Trump vs Kamala Harris: ڈونلڈ ٹرمپ یا کملا ہیرس، کس کی جیت ہوگی بھارت کے لیے فائدے مند؟

ٹرمپ یا کملا ہیرس جیتیں، دونوں ہندوستان کو اپنے ساتھ رکھیں گے۔ کیونکہ انڈو پیسیفک…

3 hours ago