بین الاقوامی

“Attacks on Hindus in Bangladesh not communal”:’’فرقہ وارانہ نہیں ہیں بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے خلاف مظالم…‘‘، یونس سرکار کا چونکا دینے والا بیان

بنگلہ دیش کی حکومت نے ہفتے کے روز ایک پولیس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 4 اگست 2024 کے بعد ملک میں اقلیتوں کے خلاف حملوں اور توڑ پھوڑ کے زیادہ تر واقعات ’فرقہ وارانہ نہیں بلکہ سیاسی نوعیت کے تھے۔‘

عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر محمد یونس کے پریس ونگ نے ایک بیان میں کہا کہ پولیس نے یہ جانچ بنگلہ دیش ہندو بدھسٹ کرسچن یونٹی کونسل کے اس دعوے کے بعد کی کہ معزول وزیر اعظم شیخ حسینہ کے ریزرویشن مخالف احتجاج کے درمیان گزشتہ سال 5 اگست کو ملک چھوڑ کر چلے جانے سے ایک دن پہلے سے لے کر اس سال 8 جنوری تک فرقہ وارانہ تشدد کے 2,010 واقعات درج کیے جا چکے ہیں۔

بیان کے مطابق، ان واقعات میں سے 1,769 کا تعلق حملوں اور توڑ پھوڑ سے تھا، پولیس نے دعوؤں کی بنیاد پر اب تک مجموعی طور پر 62 مقدمات درج کیے ہیں اور کم از کم 35 ملزمان کو تفتیش کے لیے گرفتار کیا گیا ہے۔

حالانکہ، بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ ’’تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ زیادہ تر معاملات میں حملے فرقہ وارانہ نوعیت کے نہیں تھے بلکہ سیاسی طور پر محرک تھے۔‘‘ اس میں کہا گیا ہے، “پولیس کی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ 1,234 واقعات ’سیاسی نوعیت کے‘ تھے، 20 واقعات فرقہ وارانہ تھے اور کم از کم 161 دعوے جھوٹے یا فرضی تھے۔

بیان کے مطابق، ’’کونسل کے دعووں کے مطابق، 1,452 واقعات (کل واقعات کا 82.8 فیصد) 5 اگست 2024 کو ہوئے، جب حسینہ حکومت کو اقتدار سے بے دخل کیا گیا تھا۔ 4 اگست کو کم از کم 65 اور 6 اگست کو 70 واقعات ہوئے۔

بیان کے مطابق 5 اگست 2024 سے 8 جنوری 2025 تک پولیس کو کونسل کے دعوے کے علاوہ فرقہ وارانہ تشدد کی 134 شکایات موصول ہوئیں۔ اس میں کہا گیا کہ پولیس نے تمام شکایات پر ترجیحی بنیادوں پر کارروائی کی اور کم از کم 53 مقدمات درج کیے اور 65 ملزمان کو گرفتار کیا۔

بیان کے مطابق، ’’گذشتہ سال 4 اگست سے اب تک فرقہ وارانہ تشدد کی شکایات کی بنیاد پر مجموعی طور پر 115 مقدمات درج کیے گئے ہیں اور ان معاملات میں کم از کم 100 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔‘‘

رپورٹ تیار کرنے سے پہلے، بنگلہ دیش پولیس نے ان مبینہ فرقہ وارانہ واقعات کی فہرست جمع کی، جن کے بارے کونسل نے دعویٰ کیا ہے اور تشدد کا سامنا کرنے والے ہر فرد سے بات کی۔ پولیس نے ہر اس جگہ، ہر اسٹیبلشمنٹ کا دورہ کیا جہاں یہ واقعات رونما ہوئے۔

بیان کے مطابق بنگلہ دیش پولیس نے فرقہ وارانہ تشدد کی شکایات حاصل کرنے اور اقلیتی برادری کے رہنماؤں سے رابطے میں رہنے کے لیے ایک واٹس ایپ نمبر جاری کیا ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ عبوری حکومت کی ملک میں فرقہ وارانہ حملوں کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی ہے اور اس نے پولیس کو ملزمان کی گرفتاری کا حکم دیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ عبوری حکومت نے متاثرین کے لیے معاوضہ دینے کا بھی اعلان کیا ہے۔

بتا دیں کہ بنگلہ دیش میں گزشتہ چند مہینوں میں ہندوؤں سمیت دیگر اقلیتی برادریوں پر کئی حملے ہوئے ہیں اور ان کے گھروں اور مذہبی مقامات کو نذر آتش کرنے کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ بھارت نے ان واقعات پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

بھارت ایکسپریس۔

Md Hammad

Recent Posts

پوری دنیا پریاگ راج کے مہا کمبھ میں آنے کے لیے ہے بے تاب: ڈاکٹر دنیش شرما

اتر پردیش کے سابق نائب وزیر اعلیٰ ڈاکٹر دنیش شرما نے کہا کہ 144 سال…

1 hour ago

Massive fire in Bhiwandi: مہاراشٹر کے بھیونڈی میں شدید آتشزدگی، 6-7 دکانیں جل کر خاک، اس وجہ سے لگی آگ

آگ لگنے کی اطلاع ملتے ہی فائر بریگیڈ کی تین گاڑیاں موقع پر پہنچ گئیں۔…

3 hours ago