جھارکھنڈ کے سابق وزیر اعلی اور جے ایم ایم لیڈر چمپائی سورین نے منگل 27 اگست 2024 کو واضح کیا کہ وہ بی جے پی میں شامل ہوں گے۔ وہ 30 اگست کو بی جے پی میں شامل ہوں گے۔ ذرائع کی مانیں تو چمپئی سورین کے اس اعلان کے بعد بی جے پی میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے۔ جھارکھنڈ بی جے پی کے صدر بابولال مرانڈی اس سے ناراض بتائے جاتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بابو لال مرانڈی چاہتے تھے کہ چمپئی سورین براہ راست بی جے پی میں شامل نہ ہوں۔ انہیں اپنی الگ پارٹی بنانا چاہئے اور این ڈی اے کا حصہ بننا چاہئے اور ایک ساتھ الیکشن لڑنا چاہئے۔ اس سے جھارکھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم) کے قبائلی ووٹوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے، لیکن اب ان کے بی جے پی میں شامل ہونے کے اعلان کے بعد، کہا جاتا ہے کہ وہ ناراض ہیں۔ بابولال مرانڈی نے منگل 27 اگست کو وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات سے کئی سیاسی معنی نکالے جا رہے ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ اس میٹنگ میں چمپئی سورین کے پارٹی میں رول پر بھی بات ہوئی ہوگی۔ فی الحال بی جے پی نہ تو اپنے سینئر لیڈر بابو لال مرانڈی کو ناراض کرنا چاہے گی اور نہ ہی چمپئی سورین کو اپنے ساتھ لے کر جے ایم ایم کو کمزور کرنے کا موقع گنوانا چاہے گی۔ آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ دونوں لیڈر بی جے پی کے لیے کیوں اہم ہیں۔
کیا ہے چمپئی سورین کی طاقت ؟
چمپئی سورین کے بی جے پی میں شامل ہونے کی خبروں کے بعد بابولال منراڈی کی ناراضگی کی خبریں تو سامنے آرہی ہیں، لیکن پارٹی کو اس فیصلے سے کافی فائدہ ضرور ہوسکتا ہے۔ سیاسی ماہرین کا ماننا ہے کہ چمپئی کے ذریعے بی جے پی اسمبلی انتخابات میں جے ایم ایم کے قبائلی ووٹ بینک کو بڑا نقصان پہنچا سکتی ہے۔
کولہن کی سیٹوں پر چمپئی سورین کی اچھی گرفت ہے۔ خاص طور پر پوٹکا، گھاٹشیلا اور بہاراگورہ، اچا گڑھ، سرائیکیلا-کھرساواں اور پی سنگھ بھوم ضلع کے اسمبلی حلقوں میں ان کا بڑا ووٹ بینک ہے اور وہ اپنے طور پر نتائج بدل سکتے ہیں۔ چمپئی سورین نے کولہن کے جن گھاٹشیلا، بہراگوڑا، پوٹکا اور اچا گڑھ پر قبضہ کر رکھا ہے۔ گزشتہ چند انتخابات سے ان نشستوں پر جیت اور ہار کا فرق 10 سے 20 ہزار ووٹوں کا رہا ہے۔ ایسے میں چمپئی سورین بی جے پی کو یہاں جیت کی طرف لے جا سکتے ہیں۔
بابولال مرانڈی کتنے مضبوط ہیں؟
بابولال مرانڈی مرکزی وزیر ہونے کے علاوہ بی جے پی کے ریاستی صدر بھی ہیں۔ بابولال مرانڈی جھارکھنڈ کے پہلے وزیر اعلیٰ تھے۔ قبائلی ووٹوں پر ان کی اچھی گرفت سمجھی جاتی ہے۔ ان کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب یشونت سنہا جیسے تجربہ کار بی جے پی لیڈر کو 2004 کے لوک سبھا انتخابات میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا تو وہ کوڈرما سے جیت گئے۔ قا بل ذکر بات یہ ہے کہ کچھ بی جے پی رہنماؤں کے ساتھ اختلافات کی وجہ سے، بابولال مرانڈی نے 2006 میں بی جے پی کو چھوڑ دیا اور اپنی نئی پارٹی جھارکھنڈ وکاس مورچہ بنائی۔ 2009 میں انہوں نے آزاد امیدوار کے طور پر کوڈرما لوک سبھا سیٹ کے ضمنی انتخاب میں کامیابی حاصل کی۔ 2009 میں ہوئے جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات میں بابولال مرانڈی کی پارٹی نے 11 سیٹیں جیتی تھیں، جب کہ 2014 میں ان کی پارٹی نے 8 سیٹیں جیتی تھیں۔
بھارت ایکسپریس
جب تین سال کی بچی کی عصمت دری کر کے قتل کر دیا گیا تو…
اتوار کو ہندو سبھا مندر میں ہونے والے احتجاج کے ویڈیو میں ان کی پہچان…
اسمبلی انتخابات کے لیے کل 10 ہزار 900 امیدواروں نے پرچہ نامزدگی داخل کیے تھے۔…
جماعت اسلامی ہند کے مرکزی وفد نے نائب صدر ملک معتصم خان کی قیادت میں…
سنگھم اگین، جو اجے دیوگن کے کیرئیر کی سب سے بڑی اوپنر بن گئی ہے،…
یووا چیتنا کے ذریعہ 7 نومبر 1966 کو ’گورکشا آندولن‘میں ہلاک ہونے والے گائے کے…