تحریر: پارومیتا پین
پلاسٹک کی پیداوار اور استعمال بشمول ہندوستاندنیا بھر میں ماحولیاتی تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔ ہندوستان میں یومیہ بنیادوں پر ۲۶ ہزار ٹن پلاسٹک کا فضلہ پیدا ہوتا ہے۔ اس فضلے کا ایک بڑا حصہ زمین کی نذر کر دیا جاتا ہے جہاں سے یہ زہریلے مادّوں کو مٹی اور آبی ذخائر میں منتقل کرنے کا سبب بنتا ہے۔
ایرناکولم میں واقع کوچنیونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں سینئر ریسرچ اسکالر اکھل پرکاش ای کا ماننا ہے ’’ہم جو فضلہ پیدا کرتے ہیں اس کی ذاتی ذمہ داری لے کر‘‘ اس مسئلے سے نمٹا جا سکتا ہے۔ وہ لِٹر لاگ نامی پروجیکٹ کا حصہ تھے، جس کا مقصد مصنوعی ذہانت (اے آئی) کا استعمال کرتے ہوئے مختلف علاقوں میں پلاسٹک پھینکنےوالی جگہوں کا نقشہ بنانا اور پلاسٹک کی اقسام کی نشاندہی کرنا ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’اس سے ان مخصوص علاقوں کی نشاندہی کرنے میں مدد ملتی ہے جن پر توجہ کی ضرورت ہے، خواہ وہ گھریلویا مچھلی کے فضلہ سے متعلق ہوں۔‘‘
اکھل نے اس پروجیکٹ کو ’’ٹیک فار اوشنس: اننوویٹیو سولوشنس فار اے سسٹینیبل فیوچر‘‘ ٹیکنالوجی کیمپ میں پیش کیا، جس کا اہتمام کوچی میںواقع سینٹر فار پبلک پالیسی ریسرچ نے چنئی کے امریکی قونصل خانہ کے اشتراک سے کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں ’’مستقبل میں، ہمارا مقصد اے آئی اور سیٹلائٹ میپنگ تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے اس پروجیکٹ کو عالمی سطح پر وسعت دینا ہے۔‘‘
سمندری حیات کی حفاظت
کوچی میں تین روزہ ٹیک کیمپ، جس کے شرکاء کا تعلق ملک بھر سے تھا، کا مقصد سمندر کی سطح میں اضافہ، بگڑتی ہوئی سمندری حیات، سمندری اور سطح کے درجہ حرارت میں اضافہ، غیرضابطہ بند ماہی گیری اور سمندری آلودگی جیسے مسائل کا جائزہ لینا تھا۔ شرکاء نے سمندری آلودگی سے نمٹنے اور آبی گزرگاہ کے انصرام کے لیے آٹھ پروجیکٹ تیار کیے۔
سینٹر فار پبلک پالیسی ریسرچ کے بانی چیئرمین ڈی دھنوراج کہتے ہیں ’’کیمپ میں بین الاقوامی اور مقامی ماہرین موجود تھے اور ٹرینرز نے پائیدار ترقیاتی اہداف یا ایس ڈی جی ۱۴ کے مقاصد کے حصول کے لیے کام کرتے ہوئے سمندر کی صحت اور پائیداری کے بارے میں بیداری بڑھانے کے لیےایک باہمی اور کثیر جہتی نقطہ نظر اختیار کیا جس میں ’سمندروں اور سمندری وسائل کے محفوظ اور پائیداراستعمال پر زور دیا گیا ہے۔‘
سہولت کاروں میں پالیسی ساز، سرکاری محکموں کے نمائندے، تعلیم اور تحقیق کے تکنیکی ماہرین، سماجی تکنیکی صنعت کار اور قومی اور بین الاقوامی ادارے شامل تھے جو سمندری صحت، ماحولیاتی مسائل اور حکمرانی میں ہندوستانکی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے کے لیے کام کرتے ہیں۔ شرکاء کو ماہرین کی پریزنٹیشن، تفاعلی اجلاس اور گروپ مباحثوں کے امتزاج کے ذریعے تربیت دی گئی۔
کمیونٹی کے لیے ٹیکنالوجی
ٹیک کیمپ میں صحت مند اور پائیدار انسانی ماحول کے ملن کو فروغ دینے کے لیے طبقات اور سمندر کو جوڑنے سے متعلق موضوعات پر زور دیا گیا۔پروجیکٹوں میں خطرے سے دوچار انواع کی شناخت، ’ریئل ٹائم ڈیٹا‘ کے استعمال، سمندری تحلیل اور لوگوں کو سمندری آلودگی میں ان کی شمولیت کی بنیاد پر ترغیب دینے کے لیے اختراعی خیالات جیسے متنوع پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا۔
شریجن پروین ٹیڈے کے اسٹارٹ اپ ’املان ریور کارپ ‘ نے جی پی ایس سے چلنے والے آن بورڈ کیمروں کا استعمال کرتے ہوئے سمندری نقشہ سازی سے متعلق ڈیٹا کے مجموعے پر ایک پروجیکٹ تیار کیا۔ ٹیڈے کہتے ہیں ’’ہمارا کٹا کلین دو اعشاریہ صفر، جو کہ مقامی طور پر تیار کردہ ایک واٹر ٹریش اسکیمر ہے،اس سے آبی ذخائر میںواضح اور صاف نظر آنے والی آلودگی سے نمٹنے میں اس سے بھی کہیں زیادہ مؤثر طریقے سے مدد ملے گی جس طرح فی الحال (صفائی) کی جا رہی ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں ’’ہمارا کرہ ارض ۷۳فی صد پانی پر مشتمل ہے۔ آلودگی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی شرح کے ساتھ ہمیں کارروائی کرنے کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر ہم اپنے آبی ذخائر کو خراب اور زہریلا بننے کے لیے چھوڑ دیں گے۔‘‘
ناگپور میں واقع’املان ریور کارپ‘سمندری ماحولیات کے تحفظ سے متعلق ایک اسٹارٹ اپ ہے جو سمندری ماحولیاتی آلودگیسے نمٹنے اور فضلہ کے انصرام کے لیے وقف ہے۔ایک ابھرتے ہوئے بحری معمار اور سمندری انجینئر سے سی ای او بننے والے ٹیڈے آبی آلودگیسے نمٹنے کے حل کی فوری ضرورت کو حل کرنے میں مدد کرنے کے لیے ہم خیال افراد کے ساتھ تعاون کرنے کے خواہش مند ہیں۔
دھنوراج کے نزدیک ٹیک کیمپ بیداری پیدا کرنے اور سمندری آلودگی اور سمندری وسائل کے موثر استعمال کے حل تلاش کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال کی ضرورت، صلاحیت اور موزونیت کو سمجھنے کا ایک انمول موقع تھا۔ وہ کہتے ہیں ’’اس سے ہمیںسمندری ماحولیاتی نظام میں پیچیدگی کے ساتھ ساتھ یہ سمجھنے میں بھی مدد ملی کہ یہ کس طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ مختلف ہوتا ہے ، خاص کر دور افتادہ ماہی گیری کے گاؤں میں۔‘‘
مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے پلاسٹک کی آلودگی کا پتہ لگانے جیسے ہائی ٹیک سسٹمز سے لے کر ساحل سمندر کی کم تکنیکی صفائی اور بیداری کی مہم تک ٹیک کیمپ کوچی کی اختراعات نےباور کرایا کہ پائیدار حل کس طرح اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ہندوستان میں امریکی مشن ماحولیات کے تحفظ کے لیے پائیداری کو مسلسل فروغ دے رہا ہے۔ جیسا کہ امریکی دفتر خارجہ کے ترجمان کا کہنا ہے ’’امریکی محکمہ خارجہ ستمبر ۲۰۲۴ءمیں پونے میں منعقد ہونے والے ہمارے آئندہ ٹیک کیمپ کے ساتھ ہندوستان میں اضافی اثرات قائم کرنے کا منتظر ہے، جو مہاراشٹر میںآلودگی سے پاک فضلہ کے انصرام کو فروغ دینے کے لیے تکنیکی حل پر مرکوز ہو گا۔‘‘
بشکریہ اسپَین میگزین، شعبہ عوامی سفارت کاری ،پریس آفس، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی
طالبان نے کئی سخت قوانین نافذ کیے ہیں اور سو سے زائد ایسے احکام منظور…
اداکارہ نینتارہ نے سوشل میڈیا پر لکھے گئے خط میں انکشاف کیا ہے کہ اداکار…
بہوجن وکاس اگھاڑی کے ایم ایل اے کشتیج ٹھاکر نے ونود تاوڑے پر لوگوں میں…
نارائن رانے کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے، جب مہاراشٹر حکومت الیکشن کے…
تفتیش کے دوران گل نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اس نے بابا صدیقی کے…
وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے غیر ملکی دوروں کا استعمال احتیاط سے منتخب تحائف…