قومی

UP Madarsa Education Act 2004: سپریم کورٹ نے کس بنیاد پر لگائی یوپی مدرسہ ایکٹ 2004 سے متعلق الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک؟

یوپی مدرسہ ایکٹ کو الہ آباد ہائی کورٹ نے منسوخ کرنے کا فیصلہ سنایا تھا۔ اس کے بعد مدرسہ عزیزیہ اجازت العلوم نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ اپنی عرضی میں کہا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے سبب مدارس میں پڑھ رہے لاکھوں بچوں کے مستقبل پرسوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔ اس لئے فیصلے پرروک لگائی جائے۔ اس معاملے کی سماعت چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑکی صدارت والی بینچ نے کی اور ایکٹ کو منسوخ کرنے والے فیصلے پر روک لگا دی۔

عدالت میں عرضی گزار کی طرف سے ابھیشیک منو سنگھوی پیش ہوئے اورطلبا کی تعداد (تقریباً 17 لاکھ) بتاتے ہوئے ہائی کورٹ کے فیصلے پر حیرانی ظاہرکی اوراعتراض کیا۔ انہوں نے کہا کہ یوپی حکومت کے حکم پرسائنس، ہندی اورریاضی سمیت سبھی موضوعات مدارس میں پڑھائے جا رہے ہیں۔ اس کے باوجود ان کے خلاف قدم اٹھایا جا رہا ہے۔ یہ 120 سال پرانے ضابطہ (1908 کا اصل ضابطہ) کی پوزیشن ہے۔ 1987 کے قوانین اب بھی لاگوہوتے ہیں۔

’کیا ہمیں ان سے کہنا چاہئے کہ یہ ہندومذہبی تعلیم ہے؟‘

ابھیشیک منوسنگھوی نے مزید کہا کہ ہائی کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ اگرآپ کوئی مذہبی مضمون پڑھاتے ہیں تو وہ مذہبی عقیدہ کی تعلیم دیتا ہے، جوسیکولرازم کے خلاف ہے۔ سنگھوی نے اپنے والد کا ذکر کرتے ہوئے کہا، آج کے دورمیں گروکل مشہورہیں، وہ اچھا کام کررہے ہیں۔ میرے والد کے پاس بھی ایک ڈگری ہے۔ کیا ہمیں انہیں بند کردینا چاہئے اور کہنا چاہئے کہ یہ ہندو مذہبی تعلیم ہے؟

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے حکومت سے کہا، آپ نے پہلے اپنے حلف نامہ میں مدرسہ ایکٹ کی حمایت کی تھی۔ اس پراٹارنی جنرل نے کہا کہ اب جبکہ ہائی کورٹ ایکٹ کوغیرآئینی قراردے چکی ہے تو ہم اسے قبول کرتے ہیں کیونکہ ہائی کورٹ آئینی عدالت ہے۔ ہم یہ اخراجات نہیں اٹھاسکتے ہیں۔ کسی بھی سطح پر مذہب کا الجھاو ایک مشتبہ موضوع ہے۔ عدالت کے حکم پر یوپی حکومت قدم اٹھا رہی ہے۔

17 لاکھ بچوں کی تعلیم بنی بنیاد

دونوں فریق کی دلیلوں کو سننے کے بعد سپریم کورٹ نے کہا، ہائی کورٹ کے فیصلے سے 17 لاکھ بچوں کی تعلیم کے مستقبل پراثرپڑے گا۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ حکم پہلی نظرمیں مناسب نہیں تھا۔ عدالت ہائی کورٹ کو چیلنج دینے کا مطالبہ کرنے والی عرضیوں پریوپی حکومت سمیت دیگرسبھی فریق کو نوٹس جاری کرتی ہے۔ ریاستی حکومت سمیت سبھی فریق کو سپریم کورٹ میں 30 جون 2024 کو یا اس سے پہلے جواب داخل کرنا ہوگا۔ 22 مارچ 2024 کے ہائی کورٹ کے حکم اورفیصلے پرروک رہے گی۔

بھارت ایکسپریس۔

Nisar Ahmad

Recent Posts

Non bailable warrant against Baba Ramdev: بابا رام دیو کے خلاف غیر ضمانتی وارنٹ جاری،گرو کے ساتھ چیلے کو بھی عدالت نے کیا طلب

آپ کو بتادیں کہ یوگا گرو بابا رام دیو اور پتنجلی آیوروید لمیٹڈ کے خلاف…

49 minutes ago

Excessive Hand Washing: کیا آپ کو بھی بار بار ہاتھ دھونے کی پڑگی ہے عادت ؟ تو  ہوجائیں ہوشیار

تب بھی ہاتھ دھونا درست ہے۔ آپ سارا دن باہر رہنے کے بعد گھر واپس…

1 hour ago

Deva Box Office Collection Day 2: شاہد کپور کی فلم  ‘دیوا’ نے کا زبردست کلیکشن، 2025 کی ان فلموں کو دی شکست

دیوا' کے پروڈکشن ہاؤس، زی اسٹوڈیوز کے مطابق، 'دیوا' نے پہلے دن ہندوستانی باکس آفس…

2 hours ago

Saputara Ghat Accident: مہا کمبھ سے  واپس آرہی بس گجرات کے ساپوتارا گھاٹ میں حادثہ کا شکار، 7 افراد کی موت، 15 زخمی

اتوار (2 فروری) کی صبح تقریباً 5.30 بجے ناسک-سورت ہائی وے پر ساپوتارا گھاٹ کے…

3 hours ago

US-Canada Tariff War: کینیڈا کا ٹرمپ کی ٹیرف پر ایکشن وار ، ٹروڈو نے امریکہ کو  دیابڑا جھٹکا

جسٹن ٹروڈو نے انسٹاگرام پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک امریکی ٹریف…

3 hours ago