از قلم: شیوراج سنگھ چوہان
وزیر اعظم نریندر مودی نے گہری تشویش اور حسا سیت کا اظہار کاشتکاروں کے معاملے میں ان کے فیصلوں، پالیسیوں اور کاشتکار برادری کے لیے وضع کیے جانے والے منصوبوں سے واضح طور پر ہوتا ہے۔ ہمارے خوراک فراہم کاروں (ان داتاؤں ) کی زندگی کو تغیر سے ہمکنار کرنا ہمارے وزیر اعظم کا اولین نصب العین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زراعت اور کاشتکاران این ڈی اے حکومت کی تیسری مدت کار کے پہلے 100 دنوں میں سرکردہ ترجیحات میں شامل رہے ہیں۔ ان کی قیادت میں حکومت زرعی شعبے کی اختیار دہی اور اس کی حالت بہتر بنانے کے لیے بے مثال کوششیں کر رہی ہے۔ ہم کاشتکاروں کی آمدنی میں اضافے کے لیے پابند عہد ہیں جس کا اظہار زرعی بنیادی ڈھانچہ فنڈ (اے آئی ایف)، پی ایم اے ایس ایچ اے جیسی اسکیموں سے واضح طور پر ہوتا ہے۔
بھارت میں فصل کٹنے کے بعد لاحق ہونے والے خسارے ایک بڑی چنوتی ہیں جو زرعی شعبے کی پیداواری صلاحیت کو متاثر کرتی ہے۔ یہ برعکس طور پر لاکھوں کاشتکاروں کے ذریعہ کی گئی کڑی محنت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ حالیہ تخمینوں کےمطابق تقریباً 16-18 فیصد کے بقدر مجموعی خوراک پیداوار ہر سال بھارت میں اسی وجہ سے متاثر ہوتی ہے۔ ان خساروں کو زراعت کے مختلف مراحل سے مربوط کیا جا سکتا ہے مثلاً فصل کٹنے کے بعد، دانے کو بھوسے سے الگ کرنے کے دوران، ذخیرہ کرنے کے دوران، نقل و حمل اور ڈبہ بندی وغیرہ کے دوران لاحق ہونے والے خسارے، اگر ذخیرہ کرنے کا معقول انتظام نہ ہو، کولڈ چین دستیاب نہ ہوں، پروسیسنگ کی اکائیاں ناکافی ہوں اور اثر انگیز لاجسٹکس کا فقدان ہو تو یہ تمام عناصر زبردست خسارے کا باعث ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہمارے ملک کی مجموعی خوراک سلامتی متاثر ہوتی ہے۔ ان تمام امور کو مدنظر رکھتے ہوئے مودی حکومت اس پہلو کو مستحکم بنانے کے لیے نئے جوش و جذبے کے ساتھ کام کر رہی ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی اہل قیادت میں حکومت ایسی کوششیں کر رہی ہے جن کے تحت سائنس دانوں کی تحقیق کو تجربے گاہ سے زمین تک لایا جائے جس کے نتیجے میں پیداوار کی لاگت کافی کم ہوئی ہے اور کاشتکاروں کے لیے فوائد میں اضافہ ہوا ہے۔ وزیر اعظم نے تصوریت پر مبنی طریقہ کار اپناتے ہوئے ماہ جولائی 2020 میں زرعی بنیادی ڈھانچہ فنڈ (اے آئی ایف) متعارف کرایا تھا جو آتم نربھر بھارت پہل قدمی کے تحت ایک تغیراتی قدم تھا۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ کاشتکاروں کی آمدنی میں اضافہ کیا جائے اور زرعی اثاثوں کے توسط سے خوراک کے زیاں کو کم سے کم کرنے کے لیے فصل کٹنے کے بعد کے انتظام سے وابستہ مسائل حل کیے جائیں۔ یہ چنوتیاں ایسی ہیں جنہیں نئے پروجیکٹوں اور نئے عہد کی تکنالوجیوں کو اپنا کر حل کرنا ہوگا۔ اے آئی ایف کے تحت بینک سالانہ بنیاد پر سود پر تین فیصد کی رعایت فراہم کرتے ہیں اور اس کی حد 9 فیصد کے بقدر تک ہے اور مالی ادارے دو کروڑ روپئے تک کے قرض فراہم کریں گے جو سی جی ٹی ایم ایس ای (بہت چھوٹی اور چھوٹی صنعتی اکائیوں کے لیے کریڈٹ گارنٹی فنڈ ٹرسٹ) کے تحت فراہم کرائے جائیں گے۔ اس پہل قدمی کے توسط سے حکومت کا مقصد یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ پیداوار میں اضافہ کیا جائے بلکہ عمدگی اور مقدار بھی بہتر بن جائے، ساتھ ہی ساتھ کاشتکاران مزید اثر انگیز طریقے سے منڈیوں تک رسائی حاصل کر سکیں جس کے فطری نتیجے کے طور پر ان کے منافع میں اضافہ ہوگا۔
وزیر اعظم کی اہل قیادت کے نتیجے میں اگست 2024 تک اس اسکیم کے فوائد پر نظر ڈالیں تو اسکیم کے تحت منظور شدہ رقم 47500 کروڑ روپئے سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس میں سے 30 ہزار کروڑ روپئے سے زائد کی رقم پہلے ہی مختلف النوع پروجیکٹوں کے لیے تقسیم کی جا چکی ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 54 فیصد کے بقدر پروجیکٹ جو منظور ہوئے تھے وہ کاشتکاروں، امدادِ باہمی کی انجمنوں، زرعی پیداوار تنظیموں اور اپنی مدد ازخود کرنے والے گروپوں (ایس ایچ جی) سے مربوط ہیں جو وزیر اعظم کی تصوریت کے عین مطابق ہے۔ اس سے زرعی زمین کی سطح تک کے بنیادی ڈھانچے کے معاملے میں کاشتکاروں کی مضبوط شراکت ظاہر ہوتی ہے۔
وزیر اعظم مودی آراضی تک کے متعلقہ بنیادی ڈھانچے کو مستحکم بنانے کے معاملے میں ازحد پابند عہد ہیں تاکہ زرعی پیداوار کے معاملے میں فصل کٹنے کے بعد لاحق ہونے والے خساروں کے مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔ انہوں نے ذخیرہ (خشک اور یخ بستہ) نقل و حمل وغیرہ کے معاملے میں بنیادی ڈھانچہ فراہم کرنے کو ترجیح دی تاکہ کاشتکاران کو اس طرح کے فصلوں سے متعلق خسارے سے تحفظ فراہم کرایا جا سکے۔ جہاں تک خشک ذخیرہ کی بات ہے ، خوردنی اناج کی پیداوار کے مقابلے میں بھارت کے پاس فی الحال 1740 لاکھ میٹرک ٹن ذخیرہ صلاحیت بنیادی ڈھانچے کی شکل میں موجود ہے۔ بھارت میں مجموعی اناج پیداوار کے لیے 44 فیصد کے بقدر کی ذخیرہ صلاحیت موجود ہے جو ازحد تشویشناک پہلو ہے۔ اسی طریقے سے باغبانی پر مشتمل پیداوار کے لیے تقریباً 441.9 لاکھ میٹرک ٹن کے بقدر یخ بستہ ذخیرہ صلاحیت بھارت میں دستیاب ہے۔ جبکہ کولڈ چین صلاحیت محض 15.72 فیصد کی ہے یعنی ملک میں پیداہونے والے پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار کی محض 15.72 فیصد مقدار کو ہی محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ اے آئی ایف پہل قدمی نے ذخیرہ کی صلاحیت میں واقع خلیج کو پر کرنے میں مجموعی طور پر 500 لاکھ میٹرک ٹن کی مدد فراہم کی ہے جس کے نتیجے میں ملک کے لیے تقریباً 5700 کروڑ روپئے کے بقدر کے فصل کے بعد لاحق ہونے والے خساروں سے احتراز کرنا ممکن ہوا ہے۔ مزید برآں، وزیر اعظم مودی کی قیادت میں معقول کولڈ اسٹوریج سہولتیں ایسی ہیں جنہوں نے باغبانی کی پیداوار کو لاحق ہونے والے خسارے میں 10 فیصد تک کی تخفیف کی ہے جس کے نتیجے میں 3.5 لاکھ میٹرک ٹن کے بقدر پیداوار اب فصل کٹنے کے بعد محفوظ رہتی ہے اور ہر سال تقریباً 1250 کروڑ روپئے کی کفایت ممکن ہوئی ہے۔ زرعی شعبے اور کاشتکاروں کے تئیں وزیر اعظم کی عہد بندگی نہ صرف یہ کہ اقتصادی اختیار دہی کو ممکن بنائے گی بلکہ ان کے معیار حیات کو بھی بلند کرے گی۔
وزیر اعظم مودی کی رہنمائی میں اے آئی ایف زرعی بنیادی ڈھانچے کی نمو اور ترقی کو نئی رفتار عطا کر رہا ہے۔ ماہ اگست 2024 تک ملک بھر میں زرعی بنیادی ڈھانچے سے متعلق 74695 زرعی بنیادی ڈھانچہ پہل قدمیاں اے آئی ایف کے تحت منظور کی گئی ہیں۔ ان میں 18508 کسٹم ہائرنگ مراکز، 16238 بنیادی پروسیسنگ مراکز، 13702 گودام ، 3095 ذخیرہ اور درجہ بندی اکائیاں، 1901 کولڈ اسٹورس اور کولڈ چینیں اور 21251 دیگر بنیادی ڈھانچہ قسم کی سہولتوں کی فراہمی شامل ہے۔ ان میں سے 74695 پروجیکٹ ایسے ہیں جنہوں نے زرعی شعبے میں 2015 تک مجموعی طور پر 78702 کروڑ روپئے کے بقدر کی سرمایہ کاری راغب کی ہے جس سے اس شعبے میں اہم پیش رفت کا اشارہ ملتا ہے۔ وزیر اعظم مودی نے نہ صرف یہ کہ بنیادی ڈھانچہ ترقیات کو ترجیح دی ہے بلکہ اس ملک کے نوجوانوں کا بھی خیال رکھا ہے۔ انہوں نے کاشتکاروں میں صنعت کاری کو فروغ دیا ہے۔ چنانچہ 50 ہزار کے بقدر نئی زرعی صنعتیں ملک میں قائم ہو چکی ہیں۔ حکومت کی کوششوں کے نتیجے میں نوجوان اب کاشتکاری کی جانب راغب ہو رہے ہیں۔ اس سے کاشتکاروں کو خود کفیل بنانے میں مدد ملے گی اور زرعی شعبے میں اختراع کو فروغ دینے کی جانب بھی یہ ایک اہم قدم ہوگا۔ یہ تمام کوششیں ایسی ہیں جنہوں نے 800000 کے بقدر روزگار مواقع بہم پہنچانے میں مدد کی ہے اور یہ تعداد مستقبل میں مزید اضافے سے ہمکنار ہوگی، آخر کار راست یا بالواسطہ طور پر 2.5 ملین کے بقدر روزگار فراہم کرے گی۔
وزیر اعظم کی بہبودی پالیسیاں ایسی رہی ہیں جنہوں نے کاشتکاروں کے کام کرنے کے انداز میں مثبت تبدیلی پیدا کی ہے۔ کھیتوں پر ترقی یافتہ نئے ڈھانچے کی فراہمی میں کاشتکاروں کو ایک وسیع تر صارفین بنیاد کو براہِ راست طور پر اپنی چیزیں فروخت کرنے کا موقع فراہم کیا ہے جس کے ذریعہ قیمتوں کی وصولی میں اضافہ ہوا ہے اور ان کی مجموعی آمدنی بھی بڑھی ہے۔ پیکجنگ اور کولڈ اسٹوریج نظاموں کے جدید ترین تکنالوجی کے نتیجے میں کاشتکاران اپنی منڈی کی فروخت کو زیادہ دانش مندی کے ساتھ بہتر بنا سکتے ہیں اور اس طریقے سے انہیں بہتر مالیت حاصل ہوتی ہے۔ اوسطاً یہ بنیادی ڈھانچہ پہل قدمی ایسی ہے جس نے کاشتکاروں کو اپنی پیداوار کے معاملے میں 11-14 فیصد کےبقدر اعلیٰ قیمتیں حاصل کرنے کے لائق بنایا ہے۔
وزیر اعظم مودی کی پالیسیاں نہ صرف یہ کہ زرعی بنیادی ڈھانچے کو وضع کرنے کے عمل کی رہنمائی کریں گی بلکہ کریڈٹ سے وابستہ خدشات میں بھی تخفیف لائیں گی۔ کریڈٹ گارنٹی امداد کے توسط سے اور سود میں رعایت فراہم کرکے قرض دینے والے ادارے کم سے کم خدشہ مول لیتے ہوئے قرض فراہم کر سکتے ہیں جس کے ذریعہ وہ اپنے صارفین کی مدد کر سکتے ہیں۔ اس سے ان کی بنیاد کی توسیع ان کے لیے آسان ہوگی، ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے متعلقہ امور کو بھی متنوع شکل دے سکیں گے۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ یہ فنڈ ایسا ہے جس نے نبارڈ کی ازسر نو سرمایہ فراہمی کی مشترکہ سہولت کے ساتھ زرعی بنیادی ڈھانچہ کی فراہمی میں مدد دی ہے جس کے نتیجے میں بنیادی زرعی امداد باہمی سوسائیٹیوں کے لیے نافذ شرح سود میں ایک فیصد کی تخفیف واقع ہوئی ہے۔ اس نے پی اے سی ایس جیسی انجمنوں سے وابستہ ہزاروں کاشتکاروں کے لیے اہم فوائد فراہم کیے ہیں۔ اے آئی ایف کے تحت 9573 پی اے سی ایس پروجیکٹس ایسے ہیں جنہیں تاحال نبارڈ کے ذریعہ 2970 کروڑ روپئے کی رقم پر مشتمل قرضوں کے لیے منظور کیا گیا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ایک اہم قدم کے طور پر مرکزی حکومت نے اولوالعزم زرعی بنیادی ڈھانچہ فنڈ اسکیم کی فزوں تر توسیع کو منظوری دی ہے جس کے نتیجے میں اسے مزید مبنی بر شمولیت اور بامعنی طور پر مزید اثر انگیز بنا دیا ہے۔ حکومت اس امر کے لیے کوشاں ہے کہ زراعت کو ایک منفعت بخش کاروبار کی شکل دے دے اور اس مقصد کے لیے ہم چھ نکاتی حکمت عملی کے ساتھ آگے آئے ہیں تاکہ کاشتکاروں کی آمدنی میں اضافہ ہو سکے۔ یہ اضافہ پیداوار میں اضافہ، کاشتکاری کی لاگت میں تخفیف، پیداوار کے لیے واجبی قیمتوں کی فراہمی، قدرتی آفات کی صورت میں راحت کی معقول رقم کی فراہمی، زراعت کے تنوع اور قدرتی طریقہ کاشت کی شکل میں سامنے آئے گا۔ فی الحال زرعی اثاثوں کو وضع کرنے کے لیے چند امید افزا پروجیکٹ مثلاً ہائیڈرو فونک کاشتکاری، مشروم کی کاشتکاری، عمودی کاشتکاری، ہوا یا دھندھ میں کاشتکاری کو ممکن بنانا، پولی ہاؤس اور گرین ہاؤس، یہ وہ طریقے ہیں جو صرف کاشتکاروں کے گروپوں اور اجتماعی شکل میں کام کرنے والی انجمنوں کے لیے مخصوص ہیں۔ اس کے دائرہ امکان میں رونما ہوئی حالیہ توسیع کے ذریعہ انفرادی استفادہ کنندگان اب ان پروجیکٹوں کی عمل آوری کے معاملے میں اے آئی ایف کے تحت منظوریاں حاصل کرنے کے مستحق ہیں۔ اسی طریقے سے فصل کٹنے کےبعد انتظامی سرگرمیاں محض بنیادی پروسیسنگ تک محدود تھیں۔ اب چونکہ اسکیم کے احاطے کو وسعت دے کر انہیں پروسیسنگ پروجیکٹوں کی شمولیت سے مربوط کر دیا گیا ہے، لہٰذا کاشتکاران کو مربوط پروسیسنگ پلانٹوں کی فراہمی کی وجہ سے ان کی پیداوار کی بہتر قیمتیں مل سکیں گی۔ ان میں دونوں یعنی بنیادی اور ثانوی نوعیت کی پروسیسنگ شامل ہے۔
اس کے علاوہ، پی ایم – کُسُم (پردھان منتری کسان اُوجا سرکشا ایوم اُتتھان مہا ابھیان) یوجنا کا ایک عنصر بنجر، خالی پڑی ہوئی، لائق کاشت، چراگاہ یا دلدل والی آراضیات پر 2 ایم ڈبلیو کے بقدر کے شمسی بجلی پلانٹ کی تنصیب کی سہولت بھی فراہم کرتا ہے ، اور اسے آسانی کے ساتھ اے آئی ایف اسکیم میں ضم کیا جا سکتا ہے۔ یہ کلیدی انضمام کاشتکاروں کو مدد فراہم کرے گا اور کاشتکار گروپوں کو بااختیار بنائے گا اور اَن داتا (خوراک فراہم کرنے والوں) کے ان کے کردار کو اُورجا داتا (توانائی فراہم کار) میں بدل دے گا۔ ساتھ ہی ساتھ دیہی علاقوں میں معتبر صاف ستھری توانائی بنیادی ڈھانچہ سہولت وضع کرنے کے عمل کو بھی فروغ دے گا۔ اس کے علاوہ مقصد کے لیے کلی طور پر وقف قرض ضمانت تحفظ کا ذریعہ دیہی علاقوں میں بنیادی ڈھانچہ فراہم کرے گا۔ اس کے علاوہ یہ اپنے مقصد کے لیے قرض گارنٹی تحفظ جو مخصوص طور پر ایف پی اوز کے لیے نشان زد تھا جن میں این اے بی سنرکشن ٹرسٹی کمپنی پرائویٹ لمیٹڈ شامل تھی، اب اے آئی ایف استفادہ کنندگان کے لیے بھی کھلی رہے گی، جہاں وہ ضمانت سے مبرا بھرپائی کے لیے دعوے داخل کرنے کے مستحق ہوں گے۔
یہ تبدیلیاں پروسیسنگ کی اہلیتوں کو فروغ دیں گی، خوراک پیداوار میں تنوع پیدا کریں گی اور پیداوار کی عمدگی کو بھی بہتر بنائیں گی اور اضافہ کریں گی۔ یہ پیداوار کی شیلف لائف یعنی اسے اسٹور میں کتنے عرصے تک محفوظ رکھا جا سکتا ہے، میں بھی اضافہ کریں گی، نقل و حمل کی صلاحیت کو فروغ دیں گی اور دیہی سپلائی کو شہری طلب سے مربوط کرکے پورے عمل کو بہتر بنائیں گی۔ اضافی طور پر یہ تبدیلیاں دیہی روزگار مواقع بہم پہنچانے میں معاون ثابت ہوں گی۔ ان پٹ لاگت میں تخفیف لائیں گی، پیداوار میں اضافہ کریں گی اور زرعی اثر انگیزی میں اضافہ کریں گی۔ ساتھ ہی ساتھ دیہی معیشت کی مجموعی نمو اور ترقی میں بھی اپنا تعاون فراہم کریں گی۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں، زرعی بنیادی ڈھانچہ فنڈ زرعی شعبے کی ترقی کے لیے اہم تعاون فراہم کر رہا ہے اور بھارتی کاشتکاروں کی اختیار دہی کو فروغ دے رہا ہے یعنی انہیں ہمہ گیر طور پر مسائل کا حل فراہم کر رہا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی مبنی بر تصوریت کی قیادت کے طفیل کاشتکاروں کو درپیش چھوٹے چھوٹے مسائل بھی حل کیے جا رہے ہیں۔ بڑی شدت سے مواصلات اور مرکب کوششوں کے نتیجے میں کاشتکاروں کی بہبود کے معنی میں ایک نئی صبح طلوع ہوئی اور یہ وکست بھارت کے ایک ترقی یافتہ زرعی شعبے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے معاملے میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔
بھارت ایکسپریس۔
سٹی پیلس کے دروازے بند ہونے پر وشوراج سنگھ کے حامیوں نے ہنگامہ کھڑا کر…
حالانکہ اترپردیش پولیس نے کہا کہ شاہی جامع مسجد کے صدر کو ثبوتوں کی بنیاد…
اشونی ویشنو نے کہا کہ مرکزی کابینہ نے 2750 کروڑ روپے کی لاگت سے اٹل…
کمیشن کا کہنا ہے کہ کلاسز آن لائن ہونے کی وجہ سے طلباء کی بڑی…
جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے آندھرا اوربہارکے وزرائے اعلیٰ کوکھلے لفظوں میں یہ باور…
سنبھل میں کل ہوئے تشدد کے بعد آج صورتحال قابو میں ہے۔ یہاں پرانٹرنیٹ بند…