تحریر: پارومیتا پین
بَنکو جَنکوکی مصنوعات مختلف ہوتی ہیں۔ کمپنی کے چمک دار رنگ، جدید ڈیزائن اور کپڑوں کے ٹکڑوں کا از سر نو استعمال کرکے بنائے گئے یہ ملبوسات کمپنی کی بانی بھاوینی پاریکھ کی سماجی کاروباری پیشہ وری اور پائیدار فیشن کے تئیں ان کے عز م کو ظاہر کرتے ہیں۔ وہ بتاتی ہیں ’’ہم صنعتی فضلہ، بے کار کپڑوں اور پائیدار چیزوں کا نئے سرے سے استعمال کرکے اس سے نئے نئے ڈیزائن کے ملبوسات تیار کرتے ہیں۔ ہر تیار شدہ کپڑے کی اپنی منفرد کہانی ہے اور کوئی بھی دو کپڑا یکساں نہیں ہوتا۔‘‘
پاریکھ، جو ایک ٹیکسٹائل آرٹسٹ اور فیشن ڈیزائنر ہیں، بنکو جنکو اور ڈیزائن لائف سوشل ویلفیئر فاؤنڈیشنکی بانی اور کریٹیو ڈائریکٹر ہیں۔ ان دونوں تنظیموں کے ذریعے پاریکھ نے دیہی علاقوں سے تعلق رکھنےوالی کم و بیش ایک ہزار خواتین کو روزگار سے جوڑا ہے۔ پاریکھچنئی میں واقع امریکی قونصل خانہ سے مالی امداد یافتہ ویمن اِن انڈین سوشل انٹرپرینرشپ نیٹ ورک (وائسین) پروگرام کا حصہ تھیں۔ وائسین پروگرام خواتین سماجی کاروباری پیشہ وروں کو انتظامی اور قائدانہ صلاحیتوں کی افزائش میں مدد کرتا ہے۔
فضلہ سے متعلق حسّاسیت
پاریکھ کی دلچسپی فیشن میں تھی ۔ انہوں نے کئی مشہور برینڈ کے لیے کپڑے تیار بھی کیے ہیں۔ وہ وضاحت کرتی ہیں ’’بڑے بڑے برینڈکے لیے فیشن ڈیزائننگ کرنے سے مجھے بہت قیمتی تجربات حاصل ہوئے۔مجھے اس سے زیادہ سیکھنے اور کپڑا صنعت کے اطوار کو تحقیق کرکے بدلنے کی ترغیب ملی ۔‘‘ اپنے تجربے سے انہوں نے جانا کہ فیشن صنعت وسیع پیمانے پر فضلہ پیدا کرتی ہے۔ کسی بھی لباس کا تقریباً ۱۵ فی صد کپڑا کوڑے میں چلا جاتا ہے۔ بلکہ بعض اوقات تو اس سے بھی زیادہ۔‘‘
اسی مسئلہ کو دھیان میں رکھتے ہوئے پاریکھ نے۲۰۱۸ء میں اپنی ذاتی ملبوسات کی کمپنی بَنکو جَنکو شروع کی۔ جاپانی زبان میں بَنکو کا مطلب آرٹ ، سجاوٹ یا تخلیق ہے اور جَنکو انگریزی لفظ ’جَنک‘ سے لیا گیا ہے۔ ۲۰۱۸ءمیں ابتداء سے لے کر اب تک پاریکھ کی کمپنی نے ۳۶ ٹن سے زائد کپڑے کے فضلہ کو کارآمد بنایا ہے۔ اس فضلہ سے ۲۵۰ سے زیادہ مصنوعات بازار میں متعارف کروائی گئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’ہمارے خوبصورت ملبوسات کبھی فیکٹری کےفرش پر پڑا فاضل چیز ہوا کرتے تھے۔‘‘
پاریکھ کے ذریعہ اپنایا گیا پائیداری کا تصور ان کے ڈیزائن اور پیداواری عمل کا ایک اہم حصہ ہے۔ بیکارکپڑے سے تیار شدہان کے ملبوسات آرام دہ اور مفید ہوتے ہیں ۔نیز،اس میں پیداواری عمل کے دوران کپڑا ضائع ہونے کے امکانات کا فی صدبھی صفر ہے۔ پاریکھ کہتی ہیں ’’ملبوسات جب تیار ہوجاتے ہیں تو بچے ہوئے کپڑوں کے ٹکڑوں کو پیچ ورک، پشت کے کپڑوں اور دیگر چیزیں تیار کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کپڑوں کے ٹکڑوں کو دوبارہ استعمال کرنے سے فیشن صنعت میں پائیداری آتی ہے اور موجودہ مصنوعات کی زندگی میں اضافہ ہوتا ہے۔‘‘
ایک اجتماعی کوشش
پاریکھ بتاتی ہیں ’’ان ملبوسات کو دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین، پناہ گاہوں اور کمسن بچوں کے مراکز کے مکیں تیار کرتے ہیں ۔ اس سے ان کی آمدنی بھی ہوتی ہے اور ان کو معاشرہ کے مرکزی دھارے سے جڑنے کے مواقع بھی ملتے ہیں۔‘‘ بنکو جنکو کے لیے ان خواتین کی خدمات بیش بہا ہیں۔ پاریکھ تشریح کرتی ہیں ’’یہ لوگ برینڈ کی سپلائی چین کا جزو لاینفک ہیں۔ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ملبوسات اور دیگر اشیاء تیار کرتی ہیں۔ ان کی دستکاری اور تخلیقی صلاحیتتخلیقی عمل میں اہم کردار ادا کرتی ہے جس سے کپڑوں کے ٹکڑوں سے تیار شدہ ملبوسات میں ایک منفرد خصوصیت پیدا ہوتی ہے۔‘‘ سلمیٰ رضوان کہتی ہیں ’’یہ محض ایک کام ہی نہیں ہے بلکہ میرے لیے اپنی تخلیقی صلاحیتیں دکھانے اور کچھ با معنیٰ کرنے کا بہترین موقع ہے۔‘‘ بنکو جنکو خواتین کو اپنی روایتی دستکاری کے اظہاراور اپنے صارفین سے تعلقات قائم کرنے کا بھی موقع فراہم کرتی ہے۔
وائسین کا اثر
پاریکھ کہتی ہیں کہ وائسین نے ’’روابط قائم کرنے، شراکت داری، تعاون اور ہنر کے اشتراک‘‘ کے بہترین مواقع فراہم کیے ہیں۔ بنکو جنکو کو ان نیٹ ورکس کی مہارت، رہنمائی اورامداد سے بہت فائدہ ہوا جس سے ہمارے اثر و رسوخ میں بھی اضافہ ہوا۔‘‘
مخصوص ورکشاپس، صلاحیت سازی کے اجلاسوں اور سرپرستی والے پروگراموں سے بنکو جنکوکو اپنا تجارتی لائحہ عمل تیارکرنے، کارکردگی کو مضبوطی بخشنے اور فیشن صنعت کے تازہ ترین رجحانات سے خود کو باخبر رکھنے میں مدد ملی ہے۔ پاریکھ بیان کرتی ہیں ’’وائسین سے ملی بروقت مدد اورمنفرد شناخت سے بنکو جنکو کو اپنی ساکھ بنانے اور ممکنہ صارفین اور شرکاء کی توجہ اپنی جانب مبذول کرنے میں بھی کافی مدد ملی۔‘‘
پاریکھ کا ارادہ بنکو جنکو کے کمپنیوں کو دیے جانے والے تحائف کے ڈیویژن میں توسیع کرنے کا ہے جس سے مزید لوگوں کو بااختیار بنایا جا سکے اور ماحولیات پر بھی وسیع اثرات مرتب کیے جا سکیں۔ وہ بتاتی ہیں ’’ہمارے ماحولیاتی اثرات کی تشخیص اور تخفیفی لائحہ عمل کو مزید بہتر کرنے ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں سماجی اور ماحولیاتی فوائد کا اندازہ لگانےکے لیے اپنے اقدامات کے اثرات کی پیمائش کے مزید شفاف نظام کو قائم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔‘‘
بشکریہ سہ ماہی اسپَین میگزین، شعبہ عوامی سفارت کاری، پریس آفس، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی
طالبان نے کئی سخت قوانین نافذ کیے ہیں اور سو سے زائد ایسے احکام منظور…
اداکارہ نینتارہ نے سوشل میڈیا پر لکھے گئے خط میں انکشاف کیا ہے کہ اداکار…
بہوجن وکاس اگھاڑی کے ایم ایل اے کشتیج ٹھاکر نے ونود تاوڑے پر لوگوں میں…
نارائن رانے کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے، جب مہاراشٹر حکومت الیکشن کے…
تفتیش کے دوران گل نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اس نے بابا صدیقی کے…
وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے غیر ملکی دوروں کا استعمال احتیاط سے منتخب تحائف…