آج کی تاریخ یکم اپریل 2025 ہے، اور دی اکنامک ٹائمز کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، بھارت نے مسلسل تیسرے سال 100 بلین ڈالر سے زائد کی ترسیلات زر (remittances) حاصل کی ہیں۔ یہ خبر بھارت کی معاشی استحکام اور عالمی سطح پر اس کی ڈائسپورہ کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے۔ 2024 میں بھارت نے ریکارڈ 129.4 بلین ڈالر کی ترسیلات زر وصول کیں، جن میں سے 36 بلین ڈالر صرف دسمبر کے سہ ماہی میں موصول ہوئے۔ یہ اعداد و شمار ریزرو بینک آف انڈیا (RBI) کے بیلنس آف پیمنٹس ڈیٹا کے تجزیے سے سامنے آئے ہیں۔
بھارت گزشتہ 25 سالوں سے عالمی سطح پر ترسیلات زر حاصل کرنے والا سب سے بڑا ملک رہا ہے، خاص طور پر 1990 کی دہائی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی (IT) کے عروج کے بعد سے۔ 2008 سے یہ مسلسل پہلے نمبر پر ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بھارت سے ہنرمند پیشہ ور افراد کی ترقی یافتہ معیشتوں جیسے شمالی امریکہ، یورپ، اور خلیجی تعاون کونسل (GCC) ممالک کی طرف ہجرت ہے۔ یہ افراد اپنے خاندانوں کے لیے بھارت واپس پیسہ بھیجتے ہیں، جو ملکی معیشت کے لیے ایک اہم سہارا ثابت ہوتا ہے۔
2024 میں بھارت کی ترسیلات زر میں 17.4 فیصد اضافہ ہوا، جو عالمی اوسط (5.8 فیصد) سے کہیں زیادہ ہے۔ یہ اضافہ کورونا وبا کے بعد سے 63 فیصد کی مجموعی بڑھوتری کو ظاہر کرتا ہے، جو 2020 کے مقابلے میں ایک بڑی چھلانگ ہے۔ عالمی سطح پر بھارت کے مقابلے میں میکسیکو دوسرے نمبر پر ہے، جس نے 2024 میں 68 بلین ڈالر وصول کیے، جبکہ چین تیسرے نمبر پر 48 بلین ڈالر کے ساتھ رہا۔
ترسیلات زر میں اضافے کی وجوہات
ہنرمند ہجرت: بھارت سے ہنرمند پیشہ ور افراد کی بڑھتی ہوئی ہجرت، خاص طور پر آئی ٹی سیکٹر میں، ترسیلات زر کے اضافے کی بڑی وجہ ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا کے ایک حالیہ سروے کے مطابق، 21ویں صدی کے آغاز سے بھارتی آئی ٹی سروسز کی عالمی سطح پر رسائی اور مقابلہ جاتی برتری نے ترقی یافتہ معیشتوں، خاص طور پر امریکہ، کی طرف ہنرمند ہجرت کو بڑھایا ہے۔ اس کے نتیجے میں، GCC ممالک کے علاوہ، شمالی امریکہ اور یورپ بھی بھارت کے لیے ترسیلات زر کا ایک بڑا ذریعہ بن گئے ہیں۔
ملازمت کے مواقع: کورونا وبا کے بعد، ترقی یافتہ ممالک میں ملازمت کے بازاروں کی بحالی نے ترسیلات زر کو بڑھاوا دیا۔ ورلڈ بینک کے ایک بلاگ کے مطابق، OECD (Organisation for Economic Co-operation and Development) کے اعلیٰ آمدنی والے ممالک میں ملازمتوں کی بحالی نے بھارتی تارکین وطن کو زیادہ پیسہ گھر بھیجنے کے قابل بنایا۔
روایتی ذرائع: GCC ممالک، جیسے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اور قطر، روایتی طور پر بھارت کے لیے ترسیلات زر کا بڑا ذریعہ رہے ہیں۔ تاہم، حالیہ برسوں میں ان کی شراکت کم ہوئی ہے، جبکہ شمالی امریکہ اور یورپ سے ترسیلات بڑھ گئی ہیں۔
معاشی حالات: بھارت میں گھریلو آمدنی میں کمی اور مہنگائی کے دباؤ نے خاندانوں کو تارکین وطن رشتہ داروں پر زیادہ انحصار کرنے پر مجبور کیا ہے۔ بینک آف بڑودہ کے چیف اکنامسٹ مدن سبنویس کے مطابق، “یہ بھارت میں انحصار کرنے والوں کی بڑھتی ہوئی ضرورت کا عکاس ہے، جو جزوی طور پر گھریلو آمدنی میں کمی اور زیادہ مہنگائی کی وجہ سے ہے۔
بھارت کی ترسیلات زر کی یہ کامیابی عالمی سطح پر اس کی منفرد پوزیشن کو ظاہر کرتی ہے۔ 2024 میں، بھارت نے نہ صرف سب سے زیادہ ترسیلات زر وصول کیں بلکہ اس کی شرح نمو بھی عالمی اوسط سے تین گنا زیادہ رہی۔ میکسیکو اور چین کے مقابلے میں بھارت کی ترسیلات زر تقریباً دوگنی ہیں، جو اس کی ڈائسپورہ کی مضبوطی اور معاشی شراکت کو ظاہر کرتا ہے۔
مستقبل کے امکانات
ریزرو بینک آف انڈیا کے مطابق، بھارت کی ترسیلات زر آنے والے برسوں میں بلند رہنے کی توقع ہے اور 2029 تک یہ 160 بلین ڈالر تک پہنچ سکتی ہیں۔ اس کی وجہ بھارتی ڈائسپورہ کی بڑھتی ہوئی تعداد، ہنرمند ہجرت میں اضافہ، اور ترقی یافتہ ممالک میں ملازمت کے بہتر مواقع ہیں۔ تاہم، عالمی معاشی سست روی، جیسے کہ شمالی امریکہ اور یورپ میں مہنگائی، اس رفتار کو متاثر کر سکتی ہے۔
معاشی اثرات
فاریکس ریزروز: ترسیلات زر بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، جو درآمدات، خاص طور پر تیل، کے لیے ضروری ہیں۔ یہ ذخائر 2024 میں 600 بلین ڈالر سے تجاوز کر گئے ہیں، جو معاشی استحکام کی علامت ہے۔
مصرف اور سرمایہ کاری: یہ ترسیلات گھریلو مصرف اور سرمایہ کاری کو فروغ دیتی ہیں، جو بھارت کی معیشت کے لیے ایک اہم سہارا ہیں۔
روپے کی قدر: ترسیلات زر روپے کی قدر کو مستحکم کرنے میں مدد کرتی ہیں، جو عالمی معاشی دباؤ کے دوران اہم ہے۔
جی ڈی پی میں حصہ: ترسیلات زر بھارت کے مجموعی ملکی پیداوار (GDP) کا تقریباً 3 فیصد حصہ ہیں، جو اس کی معاشی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
اگرچہ ترسیلات زر بھارت کے لیے ایک بڑا فائدہ ہیں، لیکن کچھ چیلنجز بھی موجود ہیں:
مہنگائی کا دباؤ: شمالی امریکہ اور یورپ جیسے ممالک میں مہنگائی کی وجہ سے تارکین وطن کے اخراجات بڑھ رہے ہیں، جو مستقبل میں ترسیلات زر کو متاثر کر سکتا ہے۔
ہجرت کے نمونوں میں تبدیلی: GCC ممالک سے کم ہوتی ہوئی ترسیلات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ بھارتی تارکین وطن اب زیادہ تر ہنرمند ملازمتوں کے لیے ترقی یافتہ ممالک کا رخ کر رہے ہیں، جو طویل مدتی نمونوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔
پالیسی چیلنجز: بھارت کو ترسیلات زر کے بہاؤ کو برقرار رکھنے کے لیے تارکین وطن کے تحفظ اور ان کے حقوق کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے، خاص طور پر GCC ممالک میں جہاں لیبر قوانین اکثر تنقید کا نشانہ بنتے ہیں۔
بھارت کا مسلسل تیسرے سال 100 بلین ڈالر سے زائد کی ترسیلات زر حاصل کرنا اس کی عالمی معاشی پوزیشن اور ڈائسپورہ کی طاقت کا ثبوت ہے۔ یہ ترسیلات نہ صرف خاندانوں کی مالی مدد کرتی ہیں بلکہ قومی معیشت کو بھی سہارا دیتی ہیں۔ تاہم، عالمی معاشی حالات اور ہجرت کے بدلتے ہوئے نمونوں کے پیش نظر، بھارت کو ان ترسیلات کو برقرار رکھنے کے لیے پائیدار پالیسیوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مستقبل میں، اگر بھارت اپنے ہنرمند پیشہ ور افراد کی عالمی طلب کو برقرار رکھ سکتا ہے، تو یہ ترسیلات زر اس کی معیشت کے لیے ایک اہم ستون بنی رہیں گی۔
بھارت ایکسپریس۔
پی ایم مودی نے کہا کہ آج ہندوستان کا نوجوان سائنس، ٹیکنالوجی اور انویشن کی…
رتیش دیش مکھ نے پہلگام میں ہوئے دہشت گردانہ حملے پر اپنے غصے کا اظہار…
عینی شاہدین کے بیانات کے ذریعے واقعے کی پوری کڑی کو جوڑنے کی کوشش کی…
پی ایم مودی نے کہا، "چاہے وہ کسی بھی ریاست سے تعلق رکھتے ہوں، چاہے…
ذرائع نے بتایا کہ میٹنگ کے دوران مرکزی حکومت نے کوتاہی کا اعتراف کیاہے۔ ایک…
آپ کو بتاتے چلیں کہ اگرچہ چین نے پہلگام دہشت گردانہ حملے کی مذمت کی…