قومی

محمد عامر خان کی بے گناہی کے 14 سال، ”آتنک وادی کا فرضی ٹھپّہ“ میں دردناک کہانی کا انکشاف، سپریم کورٹ کی سینئروکیل ورندا گروورنے عدالتی سسٹم پراٹھایا سوال

محمدعامرخان ایک ایسا نام ہے، جودہشت گردی کے جھوٹے الزام میں 14 سال جیل میں گزارنے کے بعد باعزت بری ہوئے اور پھر دیگرنوجوانوں کے لئے مثال بن گئے۔ ان کی جوانی تو جیل میں گزرگئی، لیکن جیل سے نکلنے کے بعد انہوں نے اپنی جدوجہد اورہمت وحوصلہ سے آگے بڑھنے کا عزم کیا اورنوجوانوں کے لئے مشعل راہ بن گئے۔ پریس کلب آف انڈیا میں محمد عامرخان کی کتاب”آتنک وادی کا فرضی ٹھپّہ“ کے ہندی ایڈیشن کا اجرا کیا گیا اوراس پرتبادلہ خیال کیا گیا۔ اس تقریب میں سپریم کورٹ کی سینئروکیل ورندا گروورنے عدالتی سسٹم پرسوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ جب تک بے قصورافراد کوجیل کے سلاخوں میں پہنچانے والے پولیس اہلکاروں کوسزا نہیں ملے گی، جب تک اس طرح کے واقعات بند نہیں ہوسکتے ہیں۔

مسلمانوں کے خلاف نفرت ہمارے ملک کے لئے خطرے کی گھنٹی

بلقیس بانوکوسپریم کورٹ سے انصاف دلانے والی سینئروکیل ورندا گروورنے بھارت ایکسپریس سے خاص بات چیت میں کہا کہ محمد عامرخان پرایک دوکیس نہیں بلکہ 19 کیسزلگائے تھے، عدالت نے سب میں باعزت بری کیا۔ محمدعامرخان کی کتاب سے واضح ہوجاتا ہے کہ انہیں کس طرح سے پھنسایا گیا۔ عامرخان کی کتاب کے مطابق، پولیس اہلکاروں نے فرضی طریقے سے پھنسایا جبکہ عدالت کے فیصلوں کے مطابق، جوکیسزبنائے گئے تھے، اس میں کوئی دم نہیں تھا۔ اس لئے وہ باعزت بری ہوئے۔ اب سوال یہ ہے کہ اس طرح کے کیسزمیں جب بے قصورافراد باعزت بری ہوتے ہیں تو پھرغلط طریقے سے پھنسانے والے پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی؟ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں ہمیں دیکھنے کو مل رہا ہے کہ کچھ پولیس افسران میں مسلمانوں کے تئیں نفرت کا جذبہ ہے۔ ان کا جوبرتاودیکھنے کو مل رہا ہے، وہ بہت سنگین ہے۔ اگرہمارے سیکولرملک میں کسی طبقے یا فرقے کے خلاف اپنا رویہ بدل دیتی ہے تو یہ پورے سماج کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔

محمدعامرخان نے سنائی دردناک کہانی

محمدعامرخان نے اس موقع پرمختلف جیلوں میں 14 سال گزارنے کی دردک ناک داستان بھی سنائی۔ انہوں نے ایک طرف وہ کہانی بتائی کہ ان کو کس اذیت کا سامنا کرنا پڑا تو دوسری طرف انہوں نے یہ عزم کیا کہ وہ اپنی ہمت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 18 سال کی عمرمیں مجھے حراست میں نہیں لیا گیا، بلکہ میرا اغوا کیا گیا اورمجھے جیل میں ڈال دیا گیا۔ ایک ہفتے تک تومیری فیملی کوکسی طرح کی کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔ محمدعامرخان نے کہا کہ جیل سے باہرنکلنے کے بعد کئی طرح کے چیلنجزکا سامنا کرنا پڑا، لیکن سول سوسائٹیزنے میرا ساتھ دیا، جس کے بعد مجھی ہمت ملی۔ ایک طرف جیل میں مجھے اذیت دی گئی تو دوسری طرف میں نے وہاں سے انسانیت بھی سیکھی۔ انہوں نے بتایا کہ جیل سے باہرآنے کے بعد اندھیرا ہوتے ہی میں گھرسے باہرنکلنے سے خوفزدہ ہوجاتا تھا، اس لئے باہرنہیں نکلتا تھا، لیکن پھرمیں نے مشکل وقت کا سامنا کیا اورآگے بڑھنے کا عزم کیا۔

 

عامرخان نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ کچھ پولیس اہلکاروں نے جان بوجھ کرمیری زندگی تباہ کی، سماج میں غلط پیغام دیا، لیکن پھربھی میں نے ان کو معاف کردیا۔ عدالت سے ملے انصاف سے متعلق محمد عامرخان نے کہا کہ عدالت سے ہمیں انصاف ملا۔ میں مانتا ہوں کہ عدالت سے انصاف ملنے میں تاخیرہوسکتی ہے، لیکن انصاف ضرورملے گا۔ انہوں نے بتایا کہ اس میں صرف میری نہیں بلکہ بہت سارے نوجوانوں کی کہانی ہے۔ اس ملک میں مسلمان بڑی تعداد میں مظلوم ہے، لیکن ان کے ساتھ غریب، دلت اورآدیواسی بھی قانون کے جال میں پھنس جاتے ہیں اورانہیں انصاف سے محروم رکھا جاتا ہے، لیکن آئین کی بنیاد پرہی عدالتوں سے انصاف مل رہا ہے اورہمیں امید ہے کہ آگے بھی انصاف ملتا رہے گا۔

عامرخان بے قصورمسلم نوجوانوں کے لئے بن گئے مشعل راہ

قابل ذکرہے کہ ”آتنک وادی کا فرضی ٹھپّہ“ صرف عامرکی کہانی نہیں ہے بلکہ ان جیسے ہزاروں معصوم اقلیتوں اورپسماندہ لوگوں کی بھی کہانی ہے، جو برسوں سے جیلوں میں بند ہیں اور غیرانسانی سرکاری مشینری کا شکارہیں۔ اپنی بے گناہی کے باوجود بہت سے لوگ جیلوں میں موت کی نیند سوجاتے ہیں اورجب لاتعداد لوگ اندھیری سرنگوں سے باہرآتے ہیں تو اپنے شہری اورانسان ہونے کے حقوق کوسلاخوں میں چھوڑجاتے ہیں۔ ہرکوئی محمد عامرخان جیسا خوش نصیب نہیں ہوتا جو ایک نیا اورپُرامید مستقبل تلاش کرکے واپس آتا ہے اورکتاب لکھ کرلوگوں کو ریاست یا سسٹم کا اصل چہرہ دکھاتا ہے۔ یہ کتاب اس بات کی بھی مضبوط مثال ہے کہ خاکی اپنے بنیادی کردارمیں کس حد تک اقلیت مخالف ہوچکا ہے۔ محمد عامرخان کے مطابق، 1998 میں میں 18 سال کی عمرمیں انہیں دارالحکومت دہلی کے جامع مسجد علاقے سے گرفتار کیا گیا تھا اورخفیہ ایجنسیوں اورپولیس نے بڑی سازش کے ساتھ انہیں بم دھماکوں اورقتل کا مجرم ثابت کرتے ہوئے خطرناک دہشت گرد قراردے دیا تھا۔ انہوں نے مجرم کی حیثیت سے تقریباً 14 سال جیل میں گزارے۔ جبکہ اسے جیل بھیجنے والے بھی خوب جانتے تھے کہ ان کا اصل جرم بے گناہی ہے! جب وہ 14 سال تک انسان دشمن زندگی گزارنے کے بعد باہرآئے توان کی عمر32 سال تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک نوجوان نے جیل میں اپنی جوانی گنوا دی تھی۔

بھارت ایکسپریس۔

 

Nisar Ahmad

Recent Posts

Josh Maleeh Aabadi: شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی کے آخری شعری مجمو عے’محمل وجرس‘ اور نثری کتاب ’فکرو ذکر‘ کا رسمِ اجرا

پروفیسر انیس الرحمن نے کہا کہ جوش کئی معنوں میں اہم شاعر ہیں،زبان کی سطح…

59 mins ago