-بھارت ایکسپریس
نئی دہلی: سپریم کورٹ آف انڈیا کی پانچ رکنی آئینی بینچ نے آسام شہریت معاملے کی حتمی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا، اس معاملے میں چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس سریا کانت، جسٹس ایم ایم سندریش، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشراء پر مشتمل آئینی بینچ نے تمام عرضداشتوں پر یکجا کرکے چار دن سماعت کی۔ آئینی بینچ نے سٹیزن شپ ایکٹ کی دفعہ 6 اے کی آئینی حیثیت پر فریقین اور یونین آف انڈیا کے دلائل کی سماعت کی۔ دفعہ 6 اے کے تحت مختلف تاریخوں پر ہندوستان میں داخل ہونے والے تارکین وطن کو شہریت دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا، دفعہ 6 اے کو غیر قانونی قرار دینے کے لئے مختلف تنظیموں نے سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی ہے جس پر آج بحث مکمل ہوئی۔گذشتہ سماعت پرجمعیۃ علماء ہند کی جانب سے سینئر وکلاء کپل سبل اور اندرا جئے سنگھ نے بحث کی تھی، آج آخری دن صدرجمعیۃ علما ء ہند مولانا ارشدمدنی کی جانب سے سینئرایڈوکیٹ سلمان خورشید نے بحث کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ دفعہ 6 اے کا تحفظ ضروری ہے نیز اس وقت کی حکومت نے انسانی پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہوئے اس شق کی تشکیل دی تھی۔
وکلا نے پیش کی دلیل
وکلا نے مزید کہا کہ مرکزی حکومت کے حلف نامہ کی روشنی میں شہریت کے معاملے کو مانیٹرنگ بینچ کے سپرد کردینا چاہئے۔ سلمان خورشید نے مزید کہا کہ ہجرت کا معاملہ عالمی معاملہ ہے اورآسام میں یہ سلسلہ صدیوں سے چلا آرہا ہے، اس سلسلہ میں ہرملک اپنے اپنے اعتبارسے ریگولیٹ اورقانون بناتا ہے، 6 اے اسی سلسلہ میں ہندوستان نے ایک مخصوص حالات کے پس منظر میں نے بنایا تھا تاکہ تارکین وطن کو شہریت دی جاسکے۔ بنگلہ دیش نے 1977 میں سٹیزن شپ ایکٹ بنایا تھا جبکہ ہندوستان نے 1985میں سٹیزن شپ ایکٹ بنایا تھا اور یہ دونوں قانون میں یکسانیت ہے۔
سالسٹر جنرل نے پیش کی یہ دلیل
دوران سماعت سالیسٹرجنرل آف انڈیا نے کہا کہ گزشتہ سماعت پرسینئرایڈوکیٹ کپل سبل نے یہ کہا تھا کہ آسام میانمار کا حصہ تھا، تاریخ کی غلط کتاب کا مطالعہ کرنے بعد انہوں نے ایسا کہا تھا جس پر کپل سبل نے کہا کہ آسام کی سرکاری ویب سائٹ پر یہ باتیں لکھی ہوئی ہیں کہ آسام میانمارکا حصہ تھا۔ سالیسٹر جنرل آف انڈیا نے سرحدوں پرباڑ لگانے کے متعلق سپریم کورٹ کو معلومات فراہم کی اور کہا کہ 70 فیصد سے زیادہ کام ہوچکا ہے، لیکن ریاستی سرکار کے عدم تعاون کی وجہ سے کام میں تیزی نہیں ہے۔ دفعہ 6 اے کے خلاف داخل پٹیشن پر جوابی بحث کرتے ہوئے سینئرایڈوکیٹ شیام دیوان نے کہا کہ 6 اے کے تحت آج بھی شہریت حاصل کرنے کا عریضہ داخل کیا جاسکتا ہے، جو مقامی آسامی باشندوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی قوانین کے حساب سے تارکین وطن کی مدد کی جاسکتی ہے ایک حد تک لیکن انہیں اتنی بڑی تعداد میں شہریت دینے کی سفارش قطعی نہیں کی جاسکتی ہے۔ غیرشہریوں کی وجہ سے مقامی لوگوں کو زبردشت نقصان پہنچا ہے، بے گھر ہونے کی بات فضول ہے جو نظام قانون پورے ملک میں لاگو ہوتا ہے وہ یہاں بھی لاگو ہوگا۔ اتنی بڑی تعداد میں تارکین وطن کو شہریت دینے سے ملک کی سالمیت اور سیکورٹی خطرے میں پڑ جائے گی۔
پٹیشن پر جوابی بحث کرتے ہوئے سینئرایڈوکیٹ شیام دیوان نے دی یہ بڑی دلیل
سینئر ایڈوکیٹ ہنساریا نے کہا کہ اگرسپریم کورٹ دفعہ 6 اے کوانسانی بنیادوں یا کسی اور وجہ سے ختم نہیں کرتی ہے تو تارکین وطن کوملک کی مختلف ریاستوں میں بسائے جانے کا احکام جاری کرے، آسام کے اوپربوجھ نا ڈالا جائے، آسام ایک چھوٹی ریاست ہے اوراس کے پاس وسائل کی شدید کمی ہے، لہذا اس بات کو مدنظررکھا جائے۔ ایڈوکیٹ ہنساریا نے مزید کہا کہ اگرسپریم کورٹ تارکین وطن کوشہریت دیتی ہے تو انہیں آئین کی وفا داری کاحلف اٹھانا ہوگا کیونکہ تارکین وطن کا تعلق اس ملک سے جہاں اسلامی قانون رائج ہے۔ ایڈوکیٹ ہنساریا نے مزید بتایا کہ یونین آف انڈیا کے حلف نامہ کے مطابق آسام میں 100 ٹریبونل ہیں جس میں90000 سے زائد مقدمات زیرسماعت ہیں لہذا ان مقدمات کو فیصل ہونے میں برسوں لگ جائیں گے۔انہو ں نے مزید کہا یونین انڈیا نے یہ بھی نہیں بتایا کہ تارکین وطن کی کتنی تعداد آسام میں قیام پذیر ہے کیونکہ اتنی بڑی تعداد کا پتہ لگانا ایک مشکل کام ہے۔ اسی درمیان عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔
جمعیۃ علماء ہند کے سینئر وکلاء نے کیا یہ دعویٰ
عدالت نے آج زیادہ وقت عرضی گزاروں کے وکلاء کو دیا، جنہوں نے سالیسٹر جنرل آف انڈیا، اٹارنی جنرل آف انڈیا، کپل سبل، اندرا جئے سنگھ و دیگر وکلاء کی بحث کا جواب دیا۔ اس سے قبل کی سماعت پر صدرجمعیۃ علماء ہند مولانا ارشدمدنی کی جانب سے سینئر وکلاء کپل سبل اور اندرا جئے سنگھ نے عدالت کوبتایا تھا کہ تارکین وطن کی وجہ سے آسام کی ثقافت کو کوئی خطرہ نہیں ہے نیز مقامی آسامی باشندوں کو بھی کسی بھی طرح کی پریشانی نہیں ہے ورنہ آسام ایکورڈ کو پارلیمنٹ منظوری نہیں دیتی اور دفعہ 6 اے کو نہیں بنایا جاتا۔ واضح ر ہے کہ آسام میں شہریت کے تعین کے لئے 1951کے شہریت ایکٹ میں سیکشن 6 اے شامل کرکے شہریت کی بنیاد25 مارچ 1971 کو حتمی تاریخ تسلیم کئے جانے کو باقاعدہ پارلیمنٹ میں منظوری دی گئی تھی۔
سپریم کورٹ میں داخل کی گئی تھی عرضی
یہ ترمیم 15 اگست 1985کو آسام کی ریاستی سرکار اورمرکز کے درمیان ہوئے ایک اہم معاہدہ کی تکمیل میں کی گئی تھی، اس کے بعد آسام میں شہریت کا معاملہ تقریبا ختم ہوگیا تھا، لیکن 2012میں بعض فرقہ پرست تنظیموں نے سپریم کورٹ میں ایک عرضی داخل کرکے مطالبہ کیا کہ شہریت کی بنیاد2 مارچ 1971کے بجائے 1951 کی ووٹرلسٹ کو بنایا جائے، اس کے ساتھ ساتھ اسی عرضی میں آسام معاہدہ کی قانونی حیثیت اورشہریت ایکٹ میں 6 اے کی دفعہ کے اندراج کو بھی چیلنچ کیاگیا، اس معاملہ کو سپریم کورٹ نے جسٹس رنجن گگوئی اورجسٹس نریمن پرمشتمل ایک دورکنی بینچ کے سپرد کردیا تھا، جس نے 13 سوالات قائم کرکے مقدمہ کو ایک پانچ رکنی آئینی بینچ کے حوالہ کر دیا تھا، جواس مقدمہ کی سماعت کررہی ہے، اس اہم مقدمہ میں جمعیۃعلماء ہند روزاول سے ہی ایک اہم فریق ہے۔ واضح رہے کہ راجیوگاندھی کے دورحکومت میں جب شہریت ایکٹ میں ترمیم کرکے شہریت کے لئے 25 مارچ 1971کوکٹ آف تاریخ رکھا گیا تھا تواس ترمیم کو تمام اپوزیشن پارٹیوں نے تسلیم کیا تھا ان میں بی جے پی بھی شامل تھی۔
-بھارت ایکسپریس
Parliament Winter Session: پارلیمانی امور کے وزیر کرن رجیجو نے ٹویٹ کیا، "پارلیمنٹ کا سرمائی…
مدھیہ پردیش کے ڈپٹی سی ایم راجیندر شکلا نے کہا کہ اب ایم پی میں…
ہندوستان سمیت دنیا بھر میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ اتوار کو الیکشن منعقد…
ایم ایل اے راجیشور سنگھ نے منگل کوٹوئٹر پر لکھا، محترم اکھلیش جی، پہلے آپ…
سومی علی نے جواب دیا، 'ان کو قتل کیا گیا تھا اور اسے خودکشی کا…
سی ایم یوگی نے عوام سے کہا کہ انہیں اپنی طاقت کا احساس دلائیں، ذات…