مغربی یورپ کے ایک چھوٹے سے ملک فن لینڈ نے دنیا کے سب سے بڑے سیکورٹی اتحاد نارتھ ایٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (ناٹو) میں شمولیت اختیارکرلی ہے۔ 4 اپریل 1949 کو وجود میں آنے کے بعد سے ناٹو کی مسلسل توسیع ہو رہی ہے اورنئے ممالک اس میں شامل ہو رہے ہیں، لیکن ٹھیک 74 سال بعد فن لینڈ کی ناٹو میں شمولیت ایک تاریخی واقعہ ہے۔ ناٹوکی رکنیت حاصل کرنے کی خواہش روس کے یوکرین پرحملے کا باعث بنی کیونکہ روسی صدر پوتن ناٹوکواپنے دروازے پرنہیں چاہتے تھے، لیکن فن لینڈ کے ناٹوکا رکن بننے کے بعد اب امریکی قیادت میں اتحاد روس کی مغربی سرحد تک پہنچ گیا ہے۔ فن لینڈ اور روس کی سرحد 1,340 کلومیٹر ہے، جو کہ 1,215 کلومیٹر سے زیادہ لمبی ہے۔ بدلی ہوئی صورتحال میں ناٹوممالک کی مشترکہ سرحدیں اب 2555 کلومیٹرہیں جو روس سے ملحق ہوں گی۔ ناروے، لاتویا، پولینڈ اورلتھوانیا اب فن لینڈ سے متصل روس کی شمالی اور شمال مغربی سرحد پر ناٹو کی موجودگی رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ اب بحیرہ بالٹک میں ناٹو کے سات ممالک ہیں جس کی وجہ سے روس کے لئے خطرہ مزید بڑھ گیا ہے۔ ناٹو چارٹرکے آرٹیکل 5 میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی رکن ملک پرحملہ پوری تنظیم پرحملہ تصور کیا جائے گا، جس کا مقابلہ تمام ممالک مل کرکریں گے۔ سلامتی کی اس یقین دہانی نے فن لینڈ کو ناٹو کی پناہ میں لے لیا ہے۔
اس صورت حال میں کئی سوالات جنم لیتے ہیں۔ کیا دنیا ایک اورعالمی جنگ کے دہانے پر ہے؟ کیا امریکہ اور برطانیہ کی قیادت میں نیٹو نے روس کواکسایا ہے؟ فن لینڈ کو ناٹوکا رکن بنا کر عالمی جنگ کی دعوت دی گئی؟ یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے دنیا بھرمیں عالمی جنگ کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ خود ناٹو نے اپنی 75ویں سالگرہ پر ناگزیرکردیا ہے؟ یا یہ کہ اب روس کی خیر نہیں ہے اورروس کوناٹو کے سامنے جھکنا پڑے گا؟ ان سوالات پر بات کرنے سے پہلے ناٹو کا پس منظر جاننا ضروری ہے۔
ناٹو کا قیام 4 اپریل 1949 کو ہوا، لیکن اس کی بنیاد دوسری جنگ عظیم کے دوران ہی رکھی گئی۔ درحقیقت، دوسری جنگ عظیم کے بعد، سوویت یونین نے مشرقی یورپ کے علاقوں سے فوجیں نکالنے سے انکارکر دیا اور 1948 میں برلن کا محاصرہ کرلیا۔ اس کے بعد امریکہ نے سوویت یونین کی توسیع پسندانہ پالیسی کوروکنے کے لئے 12 ممالک کے ساتھ ناٹوکا آغاز کیا۔ امریکہ کے علاوہ ان میں برطانیہ، فرانس، کینیڈا، اٹلی، ہالینڈ، آئس لینڈ، بیلجیم، لکسمبرگ، ناروے، پرتگال اور ڈنمارک شامل تھے۔ اس کی تشکیل کا بنیادی مقصد اتحادی ممالک کو اس وقت کے سوویت یونین کے خطرے سے بچانا تھا۔ 1991 میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد ناٹو کی رکنیت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ 11 ممالک جو کبھی سوویت یونین کی سیٹلائٹ ریاست تھے اورتین سابق سوویت ممالک ناٹومیں شامل ہوچکے ہیں۔ اس سے ناٹوکے رکن ممالک کی تعداد 26 ہوگئی۔ اس عرصے کے دوران مزید تین ممالک ناٹومیں شامل ہوئے اور2020 میں میسیڈونیا کے شامل ہونے کے بعد رکن ممالک کی تعداد 30 تک پہنچ گئی۔ اس وقت ناٹو کے 29 رکن ممالک یورپی اوردو امریکی براعظم میں واقع ہیں۔
سال 2014 میں، ناٹو ممالک نے فیصلہ کیا تھا کہ 2025 تک وہ اپنے جی ڈی پی کا 2 فیصد دفاعی اخراجات کے لیے دیں گے، جسے امریکہ، برطانیہ، یونان اور پولینڈ نے پورا کیا ہے۔ فی الحال، امریکہ $811,140 (3.52 فیصد)، برطانیہ $72,765 (2.29 فیصد)، جرمنی $64,785 (1.53 فیصد) اور فرانس $58,729 (2.01 فیصد) کا حصہ ڈال رہا ہے۔
ناٹو کی فوجی صلاحیت پرنظرڈالیں تواس میں سب سے بڑا تعاون جاپان کا ہے، جس کے 55000 فوجی ناٹوکی خدمت میں موجود ہیں۔ دوسرے نمبر پرجرمنی ہے، جس کے 35 ہزارفوجی ہیں۔ ناٹونے اب فیصلہ کیا ہے کہ وہ روس کی سرحد پر3 لاکھ فوجی تعینات کرے گا جو روس کے لئے کسی صورت قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ ناٹو کے سیکرٹری جنرل جینس اسٹولٹین برگ نے کہا ہے کہ ناٹو فن لینڈ کی رضامندی کے بغیر وہاں اپنے فوجی تعینات نہیں کرے گا، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ناٹوکے ہتھیاراب فن لینڈ میں موجود ہوں گے، جس کے بارے میں روس نے پہلے ہی خبردارکیا ہے کہ اگرایسا ہوا تو روس بھی مغربی سرحد پر ہتھیاروں کی تعیناتی میں اضافہ کر دے گا۔
روس کا یوکرین پر حملہ ہی وجہ ہے کہ فن لینڈ جوکہ تقریباً 7 دہائیوں تک ایک غیرجانبدارملک تھا، اچانک ناٹوکی رکنیت کے لئے بے تاب ہوگیا۔ فروری 2022 میں یوکرین پرروس کے حملے کے فوراً بعد فن لینڈ نے 22 مئی 2022 کوناٹو کی رکنیت کے لئے درخواست دی اورصرف ایک سال میں ہی فن لینڈ کو رکنیت دے دی گئی۔ فن لینڈ بھلے ہی چھوٹا ملک ہو، لیکن فوجی طاقت کے لحاظ سے کافی باصلاحیت ہے۔ آئی آئی اے ایس ملٹری بیلنس 2022 کے مطابق، فن لینڈ کی کل فوج 2,57,250 ہے، جس میں 19,250 ایکٹیو (فعال) اور2,38,000 ریزرو فوجی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس کے پاس 100 مین بیٹل ٹینک، 107 جنگی طیارے، 19 اٹیک ہیلی کاپٹر، 613 آرمرڈ پرسنل کیریئرزاور 672 آرٹیلری ہیں۔ فن لینڈ نے یہ تیاری روس سے ممکنہ خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے کر رکھی ہے۔
درحقیقت 1809 میں روس کے اس وقت کے حکمران سکندراول نے فن لینڈ پرقبضہ کر لیا تھا۔ فن لینڈ 6 دسمبر 1917 کو روسی انقلاب کے دوران آزاد ہوا، لیکن روس کی نظریں فن لینڈ پر ہی رہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران بھی سوویت یونین نے فن لینڈ پرحملہ کیا تھا، لیکن فن لینڈ نے اسے ناکام بنا دیا تھا۔ 1948 میں فن لینڈ نے سوویت یونین کے ساتھ دوستی کے معاہدے کے تحت خود کو غیرجانبدارقراردیا تھا، لیکن روس کے یوکرین پرحملے کے بعد اپنی سلامتی کے حوالے سے فکر مند فن لینڈ نے ناٹوکی پناہ میں جانے کا فیصلہ کیا۔ خاص بات یہ ہے کہ فن لینڈ کے 80 فیصد لوگوں نے اس کی حمایت کی۔ جیسا کہ توقع کی گئی تھی، روس نے دھمکی دی کہ فن لینڈ کی ناٹو میں شامل ہونا جنگ مسلط کرنے جیسا ہوگا، جس کے نتائج ایٹمی جنگ کی طرح خطرناک ہوسکتے ہیں۔ اب وہی دھمکی خطرہ بن کرسامنے ہے۔
ناٹو کی رکنیت اورتعاون کے معاملے پرروس کو یہ سبق سکھانے کی ایک نئی پہل لگتی ہے، جو یوکرین کو ‘سبق’ سکھا رہا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب روس ناٹو اور ناٹو کے ممبران روس سے حملے کے خوف میں جی رہا ہے، اس کے نتائج جنگ کے علاوہ نہیں ہوسکتے۔ اگر جنگ ہوئی تو اس کے ایٹمی جنگ میں تبدیل ہونے کے مکمل امکانات ہیں اور ایٹمی جنگ کا مطلب تباہی ہے۔
سال 2014 پرقبضے کے بعد سے ہی روس کوناٹو نے الگ تھلگ کر دیا تھا۔ یورپی یونین سے بھی روس کی دوری بن چکی تھی، اس کے باوجود یورپی یونین توانائی کی ضروریات کے لئے روس پر انحصار کرتی رہی ہے۔ یوکرین کے بحران کے دوران بھی یہ ملک روس کے لئے ڈالرکی ضرورتیں یہی پوری کرتے رہے ہیں۔ لیکن، 4 اپریل 2023 کے بعد، صورتحال راتوں رات بدل گئی ہے۔ پوری دنیا ایک بار پھر دو دھڑوں میں بٹ گئی ہے۔
روس کے ساتھ ساتھ چین، شمالی کوریا جیسے ایٹمی ہتھیاروں سے مالا مال ممالک اورایران جیسے امریکہ مخالف ممالک ہیں تو دوسری طرف 31 ممالک کی تنظیم ناٹوہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی ایشیائی طاقت بھارت کہاں ہے؟ یوکرین جنگ سے پہلے بھارت روس سے صرف 2 فیصد خام تیل خرید رہا بھارت آج اپنی ضرورت کا 27 فیصد خام تیل خرید رہا ہے۔ یہ خریداری بھی ڈالر کی بجائے روپئے میں ہو رہی ہے۔ یوکرین جنگ پر ہندوستان کا ردعمل زبانی رہی ہے اور وہ بھی بہت متوازن۔ بھارت نے ہمیشہ امن کی وکالت کی ہے اور ثالثی کے لئے بھی وہ تیارنظرآیا ہے۔ مگر، روس پرتنقید یا روس کے خلاف کچھ بولنے سے پرہیزکیا ہے۔ وہیں، یوکرین کے ساتھ ہمدردی دکھانے میں بھی بھارت پیچھے نہیں رہا ہے۔
سرد جنگ کے دوران بھی بھارت ناوابستہ تحریک کے تحت غیرجانبدار کردارمیں رہا اور اب بھی اس کا موقف وہی ہے۔ ممکنہ عالمی جنگ میں ملوث ہونا بھارت کو زیب نہیں دیتا۔ لیکن، کیا ہندوستان کے لیے اس سے دور رہنا ممکن ہوگا؟ ہندوستان کواڈ سمیت کئی فورمز پر امریکہ کے ساتھ کھڑا ہے۔ بھارت کی سرحد پر چین کی طرف سے درپیش خطرات کو متوازن کرنے کے لیے بھی اس سفارت کاری کو ضروری سمجھا گیا ہے۔ روس کے ساتھ دوستی اس نقطہ نظر سے بھی اہم ہے۔ روس کے چین اور بھارت دونوں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں، اس لئے روس کی مدد سے بھی بھارت اپنے پڑوسی ملک چین کو کنٹرول کر سکتا ہے۔
پاکستان اب بھارت کے لئے خطرہ نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان کی جغرافیائی سیاست میں وہ اہمیت ہے، جواسے 2014 سے پہلے حاصل تھی۔ ظاہر ہے کہ ناٹو اور روس کے درمیان کشیدگی اور عالمی جنگ کی صورت میں بھارت دباؤ کے بغیر آزادانہ فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ بھارت ناٹو یا روس کے ساتھ کھڑا ہونے کی کوئی مجبوری نہیں ہے۔
چین کے ساتھ ہندوستان کی تجارت 136 بلین ڈالراورامریکہ کے ساتھ 125 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ وہیں روس کے ساتھ ہندوستان کی تجارت 10 بلین ڈالر سے بڑھ کر 40 بلین ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہندوستان جغرافیائی سیاسی صورتحال کو متوازن کرنے میں کامیاب ہے اور حکومت ہند ملک کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے قدم آگے بڑھا رہی ہے۔ وہ کسی ملک کے دباؤ میں نہیں ہے۔
فی الحال صورتحال دھماکہ خیزہے جہاں ایک چھوٹی سی چنگاری بڑی جنگ کی شکل اختیارکرسکتی ہے۔ فن لینڈ کوناٹوکی رکنیت دینے کے بعد روس اپنی فوجی طاقت میں مسلسل اضافہ کر رہا ہے۔ ایسے میں اگرفن لینڈ کے بعد یوکرین کو بھی ناٹو کی رکنیت دی جاتی ہے تو یہ روس کے لئے کھلا چیلنج ہ گا، جس کا نتیجہ تباہی ہو سکتا ہے۔