امریکی فورسز نے گزشتہ رات عراق اور شام میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کے زیر استعمال درجنوں ٹھکانوں پر طیاروں اور ڈرونز سے حملے کیے۔ایسوسی ایٹڈ پریس نے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ حملے اردن میں ایک امریکی فوجی تنصیب ’ٹاور-22‘ پر ایران کے حمایت یافتہ ایک عسکری گروپ کے ڈرون حملے کے جواب میں کیے گئے جس میں تین امریکی فوجی ہلاک اور 40 کے لگ بھگ زخمی ہو گئے تھے۔امریکی سینٹرل کمانڈ فورسز (سینٹکام) نے ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں بتایا ہے کہ فورسز نے عراق اور شام کے اندر پاسداران انقلاب قدس فورس اور اس کے اتحادی ملیشیا گروپوں کے خلاف فضائی حملے کیے ہیں۔ امریکی فورسز نے پچاسی سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا۔ ان حملوں کے لیے کئی ایرکرافٹ استعمال ہوئے جن میں دور تک مار کرنے والے جنگی طیاروں نے امریکہ سے بھی اڑان بھری۔
امریکی فوج نے ایک بیان میں کہا کہ حملوں میں کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرز، راکٹ، میزائل اور ڈرون سٹوریج کی تنصیبات کے ساتھ ساتھ لاجسٹکس اور گولہ باری کی سپلائی چین سے منسلک تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔فوج نے کہا کہ حملوں میں سات مقامات پر 85 سے زیادہ اہداف کو نشانہ بنایا گیا جن میں چار شام میں اور تین عراق میں تھے۔امریکی فوج نے مزید بتایا کہ ان حملوں کے لیے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بی ون بمبار طیاروں کا استعمال بھی شامل تھا جنہوں نے اس مشن کے لیے امریکہ سے اڑان بھری تھی۔امریکی فوج نے ایران کی قدس فورس کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا جو غیر ملکی جاسوسی اور نیم فوجی دستوں پر مشتمل ملیشیا ہیں جو مشرق وسطیٰ میں لبنان سے عراق اور یمن سے شام تک پھیلی ہوئی ہیں۔
امریکی جوائنٹ سٹاف کے ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل ڈگلس سمز نے کہا کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ حملے کامیاب رہے جن کے بعد بڑے دھماکے ہوئے کیونکہ ان حملوں میں عسکریت پسندوں کے ہتھیاروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔تاہم نہ ہی پینٹاگون اور نہ ہی جوائنٹ سٹاف کے ڈائریکٹر نے ان حملوں کے نتیجے میں انسانی اموات کے بارے میں کوئی تفصیلات فراہم کیں۔تاہم لیفٹیننٹ جنرل ڈگلس سمز نے مزید کہا کہ حملے یہ جانتے ہوئے کیے گئے کہ ان تنصبات میں موجود افراد کی ممکنہ طور پر اموات ہوئی ہوں گی۔
شام کے سرکاری میڈیا نے کہا ہےکہ شام عراق سرحد پر واقع صحرائی مقامات پر ’امریکی جارحیت‘ کے نتیجے میں متعدد افراد مارے گئے اور کئی زخمی ہوئے۔امریکی افواج کی جانب سے عراق اور شام میں تہران سے منسلک درجنوں اہداف کو نشانہ بنانے کے بعد وائٹ ہاؤس نے جمعے کو تصدیق کی ہے کہ امریکہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا۔خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے پریس کو بتایا کہ “ہم ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ 28 جنوری کو شمال مشرقی اردن میں امریکی فوجی اڈے پر حملے کے بعد سے ایران کے ساتھ کوئی “رابطے” نہیں ہیں۔ غیر رسمی یا بالواسطہ رابطے تک نہیں۔جان کربی نے عراق اور شام میں امریکہ کی طرف سے شروع کیے گئے حملوں کی “کامیابی” کا بھی اعلان کیا۔انہوں نے وضاحت کی کہ اس آپریشن میں حصہ لینے والے امریکی جنگی طیاروں نے سات مختلف مقامات پر کل 85 اہداف کو نشانہ بنایا۔ ان میں تین عراق اور چار شام میں ہیں۔”تقریباً 30 منٹوں میں 125 سے زیادہ گائیڈڈ میزائل داغے گئے۔امریکی فوج کے مطابق جنگی طیارے نشانہ بنائے گئے علاقوں سے نکل چکے ہیں۔
بھارت ایکسپریس۔
روپ وے پراجیکٹ پر وشنو دیوی سنگھرش سمیتی کے ارکان کا کہنا ہے کہ تشکیل…
اپیندر رائے نے اس ملاقات کے بارے میں اپنی ایکس پوسٹ میں لکھا کہ، ’’چیف…
ورکنگ پروگرام کے تحت دونوں ملکوں کے درمیان کھیلوں کے میدان میں دوطرفہ تعاون کو…
وزیر اعظم نریندر مودی کا کویت کا دو روزہ دورہ ختم ہو گیا ہے اور…
مسلم نیشنل فورم کا اہم اجلاس: قومی مفاد اور ہم آہنگی پر زور
بہار میں گرینڈ الائنس حکومت کے قیام کے بعد خواتین کو 2500 روپے ماہانہ دینے…