تحریر: مونسہ ندیم
ہارورڈ یونیورسٹی میں ڈرامہ، انگریزی اور تقابلی ادب کے پروفیسر مارٹن پُخنر کا خیال ہے کہ قصہ گوئی سے اس بات پر گہرا اثر پڑتا ہے کہ ہم موسمیاتی تبدیلی جیسی عالمی فکرمندیوں پر کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ اپنی تازہ ترین کتابوں ’’ لٹریچر فار اے چینجنگ پلینٹ‘‘ اور’’کلچر : دی اسٹوری آف اَس ‘‘ میں پُخنر نے اس بات کی تحقیق کی ہے کہ روزمرہ کے بیانیے موسمیاتی تبدیلی کو دیکھنے کے ہمارے طریقے کو کیسے تشکیل دیتے ہیں اور انسانیت کو آگے بڑھانے کے لیے درست بیانیے کی تشکیل کس طرح ضروری ہے۔
پُخنر ایک ایوارڈ یافتہ مصنف ہیں جن کی کتابیں فلسفہ سے لے کر فنون تک پر محیط ہیں۔ ان کا ’’نورٹن اینتھولوجی آف ورلڈ لٹریچر‘‘ اس موضوع پر سب سے زیادہ قابل اعتماد تالیفات میں سے ایک ہے۔
اسپَین نے جے پورادبی میلہ ۲۰۲۳ کے موقع پران سے گفتگو کی جہاں وہ نئی دہلی میں واقع امریکی سفارت خانہ کے کفالت یافتہ ایک سیشن ’’دی اوشنس: دی وِکٹِمس اینڈ دی سیویئرس‘‘ میں مقرر تھے۔ پیش ہیں انٹرویو کے اقتباسات۔
قصہ گوئی اورموسمیاتی تبدیلی ایسے شعبہ جات ہیں، آپ جس کے ماہر ہیں۔ ان موضوعات میں آپ کی دلچسپی کس چیز نے پیدا کی؟
میرے نزدیک یہ دو مفادات کا اشتراک ہے ۔ گذشتہ ایک دہائی سے میں اپنی کتاب ’’ دی ریٹن ولڈ‘‘ میں تاریخ پر کہانی کہنے کے اثرات پر کام کر رہا تھا۔ اس انتہائی وسیع پرو جیکٹ میں ایسے متون شامل تھے جن کا اثر اچھا خاصا تھا۔ ساتھ ساتھ میں موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے بہت فکر مند رہا ہوں۔ کسی موقع پر میں نے محسوس کیا کہ یہ دونوں مفادات باہم جڑے ہوئے ہیں۔فطرت کے بارے میں ہم جو کہانیاں سناتے ہیں اور انسانوں کی پیدا کردہ موسمیاتی تبدیلی کی سمت میں ہم نے جو راستہ اختیار کیا ہے، اس کے درمیان ایک تعلق ہے۔ لہذا، میں نے اپنی کتاب ’’لٹریچر فار اے چینجنگ پلینٹ‘‘ میں اس تعلق سے سوچنے کی کوشش کی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے معاملے میں کہانیاں کس حد تک انسانی رویے اور عمل کو متاثر کرنے کی طاقت رکھتی ہیں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ کہانیاں انسانی رویوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ جو کچھ بھی پڑھتے ہیں اس سے سوچ یا طرز عمل میں فوری تبدیلی آتی ہے۔ میں اس پر توجہ مرکوز کرتا ہوں جسے میں تمام تہذیبوں کی بنیادی کہانیاں کہتا ہوں جو نسل در نسل دہرائی جاتی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ہمیں ہمیشہ یہ احساس نہ ہو کہ ان میں سے کچھ بنیادی کہانیوں کا موسمیاتی تبدیلی پر اثر پڑتا ہے۔ چالیس سال قبل، بہت کم لوگوں نے گلگامیش کے مہاکاویہ یا بائبل کے بارے میں اس طور پر سوچا ہوگا۔ لیکن اب ہم فطرت کے تئیں انسانی رویوں پر ان کہانیوں کے نادانستہ اثرات کے بارے میں بیدار ہو رہے ہیں۔
گرچہ ہم میں سے اکثرسمندروں کوموسمیاتی تبدیلی کے شکار کے طورپردیکھتے ہیں، آپ کے خیال میں سمندرکس طرح سے موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں ؟
میرا کہانی سنانے کا طریقہ ان کہانیوں کا تجزیہ کرتا ہے جو ہم فطرت کے بارے میں بتاتے ہیں۔ جب موسمیاتی تبدیلی کی بات آتی ہے توہم مخصوص شخصیات یا کرداروں کی طرف لوٹ آتے ہیں: غنڈے اور متاثرین۔ کبھی کبھی، غنڈوں اورمتاثرین کی شناخت کرنا مفید ہو سکتا ہےلیکن میں نے محسوس کیا ہے کہ ہم ان پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے سیشن(جے پور ادبی میلہ ۲۰۲۳) اوراسے تیارکرنے کا طریقہ پسند آیا۔ اس نے اس بات پر توجہ مبذول کرائی کہ ہم کتنی جلدی سمندرجیسی وسیع اورپیچیدہ چیز کو بھی شکاریا نجات دہندہ کا رول سونپ دیتے ہیں۔ میرے نزدیک اہم بات یہ تھی کہ ہمیں اس بارے میں زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ ہم سمندرکے بارے میں کیسے بات کرتے ہیں۔ یہ کردار ایک خاص قسم کی کہانی میں ایک خاص کردار میں سمندر کو دیکھتے ہیں اور اس بات کا امکان ہے کہ یہ کہانی بہت محدود اور گمراہ کن ہو ۔ ہمیں سمندر کے لیے ایک نیا رول تلاش کرنے کی ضرورت ہے جو حقیقی سمندری سائنس پر مبنی ہو۔
امریکہ اوربھارت ہمارے سمندروں کی حفاظت اورایک پائیدار نیلی معیشت کو یقینی بنانے میں کیارول ادا کر سکتے ہیں؟
سمندری حیاتیات سے لے کراقتصادیات تک کرنے کی بہت ساری چیزیں ہیں جو میری مہارت سے بعید ہیں ۔ امریکہ اور بھارت دونوں ایسے ممالک ہیں جہاں انتہائی وسیع ساحلی پٹی موجود ہے۔ اور پھر بھی ان کے سیاسی افسانوں نے زمین پر توجہ مرکوزکی ہے۔ہر ایک ملک کا ’’دل‘‘ نیویارک سٹی یا ممبئی جیسے بندرگاہ والے شہروں میں نہیں ہے، بلکہ زمین میں ہے جس کی حیثیت مرکزی ہے۔ لہٰذامیرے خیال میں، دونوں ممالک کے لیے جوچیزمطلوب ہے ، وہ ہے سمندر کی طرف ثقافتی منتقلی ۔ میرے خیال میں امریکہ اوربھارت دونوں اس تبدیلی میں ایک دوسرے کی مدد کر سکتے ہیں۔
خواہشمند مصنفین کے لیے کوئی تجویزکہ وہ موسمیاتی تبدیلی جیسے مسائل کو بہتر طریقے سے کیسے حل کر سکتے ہیں؟
میرے نزدیک بنیادی مقصد تسلط، وسائل کے حصول اور انتقام کی پرانی کہانیوں سے نجات حاصل کرنا ہے۔ لیکن نجات حاصل کرنا کہنے سے زیادہ مشکل ہوگاکیونکہ ان کہانیوں کا اتنے عرصے سےغلبہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اس وقت لکھنے والوں کی سخت ضرورت ہے۔ ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جوافسانے، غیرافسانے، تمام فن پاروں اورمیڈیا میں کام کرتے ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں مقامی کہانیوں سے لے کرمکمل تہذیبوں پرمبنی بڑے پیمانے کی کہانیوں تک ہر چیز کی ضرورت ہے۔ ہمیں سانحات سے زیادہ مزاح کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان چھوٹی چھوٹی تبدیلیوں کی کہانیوں کی ضرورت ہے جن سے فرق پڑا اوربڑی ثقافتی تبدیلیوں کی کہانیوں کی ضرورت ہے جوحقیقت میں کام آئیں۔
جب موسمیاتی تبدیلی کی بات آتی ہے تو ہمارے پاس سائنس ہے۔ ہمارے پاس انجینئرنگ کے بہت سے حل ہیں۔ اب ہمیں ثقافتی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ تینوں میں سب سے مشکل ہے ۔ ہم پھر بھی کافی عزم کے ساتھ اس سے نمٹ نہیں رہے ہیں۔لیکن مجھے لگتا ہے کہ چیزیں آہستہ آہستہ بدل رہی ہیں۔
بشکریہ سہ ماہی اسپَین میگزین، شعبہ عوامی سفارت کاری، پریس آفس، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی
بھارت ایکسپریس۔
سردی کی لہر کی وجہ سے دہلی پر دھند کی ایک تہہ چھائی ہوئی ہے۔…
ڈلیوال کا معائنہ کرنے والے ایک ڈاکٹر نے صحافیوں کو بتایاکہ ان کے ہاتھ پاؤں…
سنبھل میں یو پی پی سی ایل کے سب ڈویژنل افسر سنتوش ترپاٹھی نے کہاکہ…
حادثے کے فوری بعد پولیس نے ڈمپر ڈرائیور کو گرفتار کر لیاہے۔ پولیس کے مطابق…
یہ انکاؤنٹر پیلی بھیت کے پورن پور تھانہ علاقے میں ہواہے۔پولیس کو اطلاع ملنے کے…
اللو ارجن کے والد نے کہا کہ فی الحال ہمارے لیے کسی بھی چیز پر…