ستمبر کی 19 تاریخ کو گنیش چترتھی کے مبارک دن پر نئے پارلیمنٹ کا آغاز ہونا محض ایک اتفاق نہیں ہے۔ پارلیمنٹ کی نئی عمارت نئے جوش، نئی توانائی اور جشن کے نئے احساس سے کارفرما نئے دور میں داخل ہونے کے ملک کے عزائم کی ایک نئی علامت ہے۔ موجودہ دور میں ملک کے نئے مزاج کو ردرج کرنے کے لیے یہ تبدیلی بہت اہم ہے۔ نئی پارلیمنٹ صرف ایک عمارت نہیں ہے، بلکہ یہ ایک ایسا مرکز بننے جا رہی ہے جہاں ہندوستانی جمہوری روایت کا مستقبل اچھی طرح سے پرورش پائے گااور منظم شکل اختیار کرے گا۔
پارلیمنٹ کے نئے کمپلیکس کے پیچھے کی سوچ نہ صرف ایک آزاد بلکہ آتم نربھر ہندوستان کی طرف ایک تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے۔ 65,000 مربع میٹر پر پھیلا ہوا، تکونی شکل کا نیا کیمپس 140 کروڑ ہندوستانیوں کی امنگوں کا عکاس ہے۔ سیاسی اختلافات اور خدشات کے باوجود پارلیمنٹ پر اعتماد کی اسی سوچ نے ہمارے جمہوری نظام کو مضبوط کیا ہے۔ اس تاریخی تبدیلی کو اعتماد کے بہت سے اہم لمحات سے مالا مال ہوا ہے،جیسے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے پرانے پارلیمنٹ ہاؤس کو ایک نئی شناخت دینے کا اعلان، دستور ساز اسمبلی کا یہ نیا نام ہندوستان کے جمہوری ورثے کے تحفظ کے تئیں لگن کی ایک جذباتی علامت ہے۔ جیسے جیسے ہندوستان آگے بڑھے گا، نیا پارلیمنٹ ہاؤس جدیدیت اور ترقی کی علامت کے طور پر کام کرے گا، جب کہ ‘سمویدھان سدن’ ملک کی جمہوری جڑوں اور اس کے آئین میں درج اصولوں کے لیے اس کی لازوال وابستگی کی سدا بہاریادگار رہے گا۔ یہ نام نہ صرف ماضی کو خراج تحسین پیش کرتا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کو ان عظیم لیڈروں سے جوڑتا ہے جو کبھی یہاں دستور ساز اسمبلی میں جمع ہوئے تھے۔ جب وزیراعظم ان لیڈروں کے تیار کردہ آئین کی کاپی لے کر پارلیمنٹ کی پرانی عمارت سے نئی عمارت میں داخل ہوئے تو ملک کے کروڑوں عوام کی امیدوں کو مزید یقین ضرور مل گیا ہوگا۔
اس موقع پر ملک کے سیاسی وراثت کو یاد کرنے اور اس کی لازوال روایات کا احترام کرنے سے یہ اعتماد مزید مضبوط ہوا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت کے نئے پارلیمنٹ ہاؤس میں ‘داخلے’ کے موقع پر مقدس سینگول کا تذکرہ اور اس پر ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا بوسہ وزیر اعظم کی عظمت کا بھی اشارہ ہےاور ہندوستان کے جمہوری اقدار اور اس کے بنیاد کے اصولوں کے تسلسل کو بھی واضح کرتا ہے۔
اب جبکہ ملک کو پارلیمنٹ کی نئی عمارت مل گئی ہے، پرانی پارلیمنٹ کو بدلنے کی ضرورت کے تنازعہ کو بھی ایک طرف رکھ دینا چاہیے۔ کئی سطحوں پر یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ نئی عمارت پر اتنے وسائل خرچ کرنے کی بجائے پرانی عمارت کو نئی شکل دینے کی گنجائش کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ ایک خیال یہ بھی ہے کہ اگرچہ پرانی عمارت انگریزوں نے بنائی تھی، لیکن یہ نئے ہندوستان کی تخلیق کی تاریخی یادوں سے بھی بھری ہوئی تھی اور اسے برقرار رکھا جانا چاہیے تھا۔ اختلاف رائے چاہے کچھ بھی ہو، اب یہ حقیقت ہے کہ ملک میں ایک نئی پارلیمنٹ ہے، جو ہندوستانیوں نے بنائی ہے، اور ہر لحاظ سے خوبصورت اور جدید ہے، جس میں پہلے سے بھی بڑا کمپلیکس ہے، جو مستقبل میں ہماری ضروریات کے لیے مزیدموزوں ہے۔
درحقیقت، آزادی سے پہلے تعمیر ہونے والی پارلیمنٹ کی پرانی عمارت نے بہت سے سنگ میل عبور کیے ہیں، جن میں ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد، ہندوستان کے آئین کو اپنانا، پرانے نوآبادیاتی دور سے سوراج کی طرف منتقل ہونے کے تاریخی قانون سازی کے لمحات اورہمارے ملک کو تعمیر کرنے والے بے شمار قابل ذکر سیاسی واقعات شامل ہیں۔ لیکن اس تلخ حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ پرانی پارلیمنٹ جو 1927 سے زیر استعمال تھی اب 100 سال کی دہلیز پر ہے۔ اس کے قیام کا خیال اور بھی پرانا ہے۔ جب 12 دسمبر 1911 کو کنگ جارج پنجم کی نئی دہلی میں تاج پوشی ہوئی تو اس وقت کلکتہ ملک کا دارالحکومت تھا۔ اسی تاجپوشی کے دوران ہی دارالحکومت کو کلکتہ سے دہلی منتقل کرنے کی بنیاد رکھی گئی۔ اس خیال کو شکل دینے کاباقاعدہ آغاز 1921 میں ہوا جسے مکمل ہونے میں چھ سال لگے۔ تاہم آزادی کے بعد وقتاً فوقتاً ضرورت کے مطابق عمارت کی تزئین و آرائش کی گئی لیکن تبدیلیوں کے بھی حدود ہوتے ہیں۔ نئی حد بندی کے بعد ایوان کے ارکان کی تعداد میں اس تناسب سے اضافہ ہونا ہے کہ انہیں پرانی عمارت میں جگہ دینا تقریباً ناممکن تھا۔ نئی عمارت میں لوک سبھا کے لیے 888 اور راجیہ سبھا کے لیے 384 نشستیں ہیں، اس طرح اس میں مشترکہ اجلاس کے لیے کل 1,272 نشستیں رکھنے کی صلاحیت ہے۔ نئی عمارت کے ذریعے خطرے سے دوچار بنیادی انفراسٹرکچر اور کام کرنے کیلئے ناکافی جگہ کے ساتھ ہی مواصلاتی چیلنجوں اور سیکورٹی خدشات کو بھی دور کیا جاسکے گا۔
نئی عمارت ملنے کے بعد پرانی عمارت کے استعمال کا سوال بھی مودی حکومت نے سمجھداری سے حل کر لیا ہے۔ حکومت نے پارلیمنٹ کی پرانی اور نئی عمارتوں کو بقائے باہمی کے ساتھ رکھنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کرکے عملی اور کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ پارلیمانی کارروائیوں کے ہموار اور موثر کام کو یقینی بنائے گا۔ پرانی عمارت کو گرانے کے بجائے اسے باوقار ‘میوزیم آف ڈیموکریسی’ میں تبدیل کرنا ایک قابل ذکر اقدام ہے جو آنے والی نسلوں کے لیے اس کی تاریخی اہمیت کو برقرار رکھے گا۔ دریں اثناء پارلیمنٹ کی نئی عمارت ترقی کی علامت بن کر ملک کے پارلیمانی کام کاج کا مرکز بنے گی۔
شاستروں میں یہ مانا جاتا ہے کہ جب ایک نام کو ایک ہی تال میں کئی بار پڑھا جائے تو وہ تپسیا کی آواز بن جاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اجتماعی آواز کسی جگہ کو ایک مثالی جگہ میں تبدیل کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔ پرانے پارلیمنٹ ہاؤس میں کئی دہائیوں سے ایوان کے نمائندوں کی گونجتی آوازوں نے اسے جمہوریت کی زیارت گاہ بنا یا ہے۔ وزیر اعظم مودی کا یہ بیان اس بات کی تصدیق ہے کہ آج سے 50 سال بعد جب کوئی جمہوریت میں یقین رکھنے والا اس جگہ کو دیکھنے آئے گا تو وہ ہندوستان کی روح کی آواز کی گونج محسوس کرے گا جو کبھی یہاں گونجتی تھی۔ جو ارکان پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں بیٹھیں گے اب ان پر جمہوریت کی اس گونج کو نئی بلندیوں تک لے جانے کی ذمہ داری ہوگی۔
بھارت ایکسپریس۔
سٹی پیلس کے دروازے بند ہونے پر وشوراج سنگھ کے حامیوں نے ہنگامہ کھڑا کر…
حالانکہ اترپردیش پولیس نے کہا کہ شاہی جامع مسجد کے صدر کو ثبوتوں کی بنیاد…
اشونی ویشنو نے کہا کہ مرکزی کابینہ نے 2750 کروڑ روپے کی لاگت سے اٹل…
کمیشن کا کہنا ہے کہ کلاسز آن لائن ہونے کی وجہ سے طلباء کی بڑی…
جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشدمدنی نے آندھرا اوربہارکے وزرائے اعلیٰ کوکھلے لفظوں میں یہ باور…
سنبھل میں کل ہوئے تشدد کے بعد آج صورتحال قابو میں ہے۔ یہاں پرانٹرنیٹ بند…