-بھارت ایکسپریس
ظہور حسین بھٹ
جے شیلبی ہاؤس کا اردوسے تعارف ایک جنوب ایشیائی دوست کے معرفت ہوا۔ دوست نے جب انہیں بعض اردو میمس دکھائے تووہ اپنی ہنسی روک نہیں پائیں۔ اس وقت ریاست ٹینیسی کی وینڈربِلٹ یونیورسٹی سے مڈل ایسٹرن اینڈ ساؤتھ ایشین اسٹڈیزمیں بیچلر کررہی ہاؤس کی خواہش مذکورہ طنز و مزاح کا حصہ بننے کی ہوئی۔ تاہم جب اس دوست نے ہاؤس کومیمس کی وضاحت کرنا شروع کی تو ہاؤس کو حیرانی ہوئی کہ اس میں مضحکہ خیز کیا ہے کیوں کہ مزاحیہ حصہ تو ترجمے کی نذر ہوگیا تھا۔
زبان سے متعلق اسی تجسس نے ہاؤس کو زبان کی باریکیوں کوسمجھنے کے لیے اردوسیکھنے کی طرف مائل کیا مگر یہ آسان نہیں تھا۔ درحقیقت وہ خود سے اردو سیکھنے کی قائل نہیں تھیں۔ ہاؤس کہتی ہیں ’’یہ واقعی مشکل ہے۔‘‘ بھارت میں تعلیم حاصل کرنے کا تجربہ رکھنے والے ان کے پروفیسروں نے انہیں بتایا کہ لکھنؤ میں امیریکن انسٹی ٹیوٹ آف انڈین اسٹڈیز(اے آئی آئی ایس) اردوسیکھنے کے لیے’’انتہائی معیاری‘‘ادارہ ہے۔ وینڈربِلٹ یونیورسٹی میں اپنے آخری سمسٹرکے دوران انہوں نے اے آئی آئی ایس لکھنؤ میں دیگرامریکی طلبہ کے ایک چھوٹے سے گروپ کے ساتھ 4 ماہ تک تعلیم حاصل کی۔
پیش ہے ہاؤس کے ساتھ لیے گئے انٹرویو کے بعض اقتباسات۔
براہ مہربانی ہمیں اپنے موجودہ کام کے بارے میں بتائیں۔
میں فی الحال یونیورسٹی آف واشنگٹن (یو ڈبلیو) میں ڈیپارٹمنٹ آف ایشین لینگویجیز اینڈ لٹریچر کے لیے ہندی میں پری ڈاکٹورل انسٹرکٹر کے طور پرخدمات انجام دے رہی ہوں۔ میں یونیورسٹی میں سماجی و ثقافتی بشریات کی پی ایچ ڈی کی طالبہ ہوں جہاں میری تحقیق بحرالکاہل کے شمال مغربی حصے میں انسانوں، جانوروں اور ماحولیات کے درمیان تعلقات پر مرکوز ہے۔ کووِڈ سے پہلے میں نے پاکستان کے کراچی میں انسانوں کی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی حرارت پر توجہ مرکوز کی لیکن وبائی حالات نے سفر اور فیلڈ ورک کو ناممکن بنا دیا۔
کیا آپ ہمارے ساتھ اردوسیکھنے کے عمل کی بعض یادیں شیئرکرسکتی ہیں ؟ اور یہ بھی کہ آپ کو زبان کی کون سی صنف زیادہ پسند آئی؟
اردو سیکھنے کی میری ابتدائی یادیں کافی تناؤ بھری تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں بعض ایسی آوازوں سے پریشان تھی جن کا میں درست تلفظ نہیں کر پاتی تھی ۔ میرے لیے ’’گھر‘‘ کا لفظ خاص طور پر مشکل تھا۔ میں اپنے آخری نام کا اردو میں لغوی ترجمہ نہیں کر پاتی تھی اور قواعد کے بعض تصورات بھی میں سمجھ نہیں پاتی تھی۔ میں غلطیاں کرنے سے ڈرتی تھی، لہذا میں نے کلاس کے بعد ہر رات گھنٹوں پڑھائی میں گزارے۔
مجھے یاد ہے کہ میں ابتداء ہی میں حوصلہ شکنی کے احساس سے گھر گئی۔ میرے دل میں خیال آتا کہ میں کبھی بھی لوگوں کے ساتھ آسانی سے بات چیت کرنے یا بولی جانے والی اردو کو سمجھنے کے لیے اس زبان میں ’’اچھی‘‘ نہیں ہو سکتی ۔ تاہم زبان سیکھنے کی مسلسل کوشش اور جستجو سے میں نے ان صلاحیتوں کو نکھارا۔
ابتدائی طور پر مجھے سیاسی تقریروں، خبروں، فلموں اور مختصر کہانیوں میں سب سے زیادہ دلچسپی تھی۔ سعادت حسن منٹو کا افسانہ’’کھول دو‘‘پڑھنا اور سمجھنا میرے لیے ایک اہم لمحہ ثابت ہوا۔ افسانہ کے اختتام نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔اس سے میرے اندر زیادہ سے زیادہ اردو ادب پڑھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔
اردو کی طالبہ کی حیثیت سے لکھنؤ میں آپ کا تجربہ کیسا رہا؟ براہ مہربانی ہمارے قارئین کے ساتھ کچھ کہانیاں مشترک کریں۔
جب میں نے پہلی بار لکھنؤ کا سفر کیا تو میں نے امریکہ سے باہر اتنا طویل وقت کبھی نہیں گزارا تھا۔ مجھے لکھنؤ میں ایک شاندار میزبان خاندان کے ساتھ رہنے کا موقع ملا جہاں میرا خیر مقدم ہوا اور میں نے خود کو محفوظ محسوس کیا۔ مجھے شہر کے خوبصورت باغوں، پارکوں، مسجدوں اور درگاہوں میں جانے کا موقع ملا ۔ اس کے علاوہ مزیدار کھانا کھانے میں بڑا لطف آیا۔
انسٹی ٹیوٹ میں میرے سارے اساتذہ بہترین انسان، خوش دل اورمہربان تھے۔ ہمیں انسٹی ٹیوٹ کے اندرانگریزی کا ایک لفظ بھی بولنے کی اجازت نہیں تھی، جوبعض اوقات میرے لیے کافی مشکل تھا۔ مجھے نہیں لگتا کہ جب تک میں امریکہ واپس نہیں چلی گئی تب تک مجھے احساس ہوپایا کہ میں نے لکھنؤمیں کتنا کچھ سیکھا ہے۔ ایک دن جب میں نیویارک سٹی کے برائنٹ پارک میں سیرکررہی تھی تب میں نے ایک شخص کواپنے بچوں کے ساتھ اردو زبان میں بات کرتے ہوئے سنا اورمیں حیران رہ گئی کہ میں واقعی اسے سمجھ سکتی ہوں۔
میری زندگی کے بہترین دنوں میں سے ایک دن وہ ہے جب میں کاکوری گئی۔ وہاں علاقے کی تاریخ کے بارے میں جاننے کا موقع ملا ۔ گائڈ نے امیر خسروکی لکھی ہوئی غزل ’’چھاپ تلک‘‘ بھی گائی۔ اس کے بعد ہم نے کاکوری کباب کا بھی لطف اٹھایا۔
اردو سیکھنے کے عمل نے آپ کے تعلیمی اور پیشہ ورانہ کریئر کو کس طرح متاثر کیا ہے؟ کیا آپ نے اس زبان میں کچھ شائع بھی کروایا ہے؟
اردو سیکھنے کے عمل نے میری تعلیمی اور پیشہ ورانہ راہوں کویکسر تبدیل کر دیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اردوسیکھنے کی میری محنت نے ہی مجھے گریجویٹ اسکول میں داخلہ لینے میں مدد کی اورمجھے یونیورسٹی آف واشنگٹن میں اپنے پہلے سال کے لیے مکمل اسکالرشپ ملی۔ دوسرے سال میں، مجھے ہندی میں فارن لینگویج اینڈ ایریا اسٹڈیز فیلوشپ ملی جس سے میرے ٹیوشن اور رہنے سہنے کے اخراجات کا انتظام ہوگیا۔ میں نے اردو تدریسی معاون، استاد اورمصنف کے طورپرخدمات انجام دی ہیں اوران تجربات نے مجھے مؤثر طریقے سے ہندی پڑھانے کے طریقے فراہم کیے۔ میں نے امریکہ میں جنوبی ایشیا اورجنوب ایشیائی امریکیوں سے متعلق امورپرکام کرنے والی غیرمنافع بخش تنظیموں کے لیے مواصلاتی کرداروں میں بھی خدمات انجام دی ہیں۔ میں نے گذشتہ سال کارٹرسینٹرمیں شروع کی گئی نیو انڈیا پالیسی انیشی ایٹو کی محقق اورمدیرہ کی ذمہ داری سنبھالی۔ میں نے اس سے پہلے کئی برسوں تک جنوب ایشیائی امریکی مصنفہ، وکیل، اسٹریٹیجسٹ، سہولت کاراورکارکن دیپا ایّرکے ساتھ بھی کام کیا ہے۔
کیا آپ اپنے جنوب ایشیائی دوستوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے اردو زبان کا استعمال کرتی ہیں؟ آپ امریکہ میں کتنی بار اس زبان کا استعمال کرتی ہیں؟
اپنے ان دوستوں اوراساتذہ کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے میں اکثراردوزبان کا استعمال کرتی ہوں جو اب بھی جنوبی ایشیا میں رہ رہے ہیں۔ میں اکثر فیس بک پر اپنی میزبان، اردو انسٹرکٹروں یا ڈرائیوروں کے ساتھ اردو میں بات چیت کرتی ہوں جن میں سے بہت سے لوگ انگریزی نہیں بولتے۔ اردو زبان میں ان کی خیریت دریافت کرنا بڑا اچھا لگتا ہے۔ امریکہ میں ہندی اوراردو پڑھاتے اورپڑھتے وقت تقریباً ہرروز میں اردو زبان کا استعمال کرتی ہوں۔ کیمپس میں جب بھی راہ چلتے میری ملاقات اپنے استاد جمیل احمد سے ہوتی ہے تومیں ان سے اردو میں بات کرتی ہوں۔ میں ہندی اوراردوخبروں کے بہت سے ذرائع کو بھی دیکھتی رہتی ہوں۔ میں ہرروزاردو زبان میں کچھ مضامین پڑھنے کی کوشش کرتی ہوں۔
جنوب ایشیائی مطالعات کے لیے اردو کا علم ہونا کتنا ضروری ہے؟
اگر آپ کی تحقیق بھارت، پاکستان یا تارکین وطن طبقات پرمرکوز ہے تواردو سیکھنا بہت اہمیت کی حامل چیزہے۔ لوگوں کی زبان سیکھے بغیران کے ساتھ تعلقات قائم کرنا اوران کی دنیا کو سمجھنا ناممکن ہے۔ ایک علاقائی زبان سیکھنے سے جنوبی ایشیا میں ثقافت اورتاریخ کے بارے میں آپ کے شعورمیں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ آپ کو انکساری سکھاتی ہے اورآپ کواپنے بات چیت کرنے والوں کے سامنے ذمہ دارہونے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ اس زبان کو سیکھنے سے انگریزی سے پرے آپ کےغوروفکرکرنے کی صلاحیت کو وسعت ملتی ہے۔ اس سے آپ اظہاراور معنی کی ان باریکیوں کو بھی سمجھ سکتے ہیں جن کا براہ راست انگریزی میں ترجمہ کرنا ناممکن ہوتا ہے۔
بشکریہ اسپَین میگزین، شعبہ عوامی سفارت کاری، پریس آفس، امریکی سفارت خانہ ، نئی دہلی
-بھارت ایکسپریس
یہ حادثہ احمد آباد-ممبئی بلٹ ٹرین پروجیکٹ کے دوران پیش آیا۔ زیر تعمیر پل گر…
ہندوستان اور نائیجیریا نے انسداد دہشت گردی کے تعاون کو بڑھانے کے لیے کلیدی شعبوں…
پولیس نے کہا کہ ہماری سائبر ٹیم نے کچھ سوشل میڈیا ہینڈلز کی نشاندہی کی…
امریکہ میں کروڑوں ووٹرز پری پول ووٹنگ کے تحت پہلے ہی ووٹ ڈال چکے ہیں۔…
دپیکا اور رنویر نے اپنی پیاری کا نام دعا پڈوکون سنگھ رکھا ہے۔ بیٹی کا…
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ اگر جنوبی افریقہ سری لنکا اور پاکستان کو 0-2 سے…