Saudi Arab Execution In Ramadan: سعودی عرب نے رمضان کے مقدس مہینے کے دوران ایک شخص کو پھانسی دے دی۔ گارجین نے ایک ہیومن رائٹس گروپ کا حوالہ دیتے ہوئے پھانسی کی بات کی تصدیق کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ الگ طرح کا معاملہ تھا۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پھانسی 28 مارچ یعنی رمضان کے پانچویں دن دی گئی۔ سعودی شہری جسے قتل کا قصوروار ٹھہرایا گیا تھا، اسے مدینہ میں پھانسی دی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملزم آدمی نے ایک متاثرہ کو چاقو مار دیا تھا اور آگ لگا دی تھی۔ یوروپین سعودی ہیون رائٹس آرگنائزیشن (یورپی سعودی انسانی حقوق کی تنظیم) نے سعودی عرب کے داخلی امور کی وزارت کے ذریعہ سزائے موت کے اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ سعودی عرب نے رمضان کے دوران ایک شہری کوسزائے موت دے دی۔
سال 2023 میں 17 افراد کو پھانسی
یوروپین سعودی انسانی حقوق تنظیم (ای ایس او ایچ آر) نے کہا کہ سعودی عرب میں سال 2009 سے مقدس مہینے کے دوران کسی بھی طرح کی سزا نافذ نہیں کی گئی ہے۔ گروپ نے کہا کہ سعودی عرب میں پھانسی کی شرح دنیا کی سب سے اونچی شرح میں سے ایک ہے اور اس نئے معاملے کے ساتھ سال 2023 میں پھانسی کی تعداد بڑھ کر 17 ہوگئی۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی نے پہلے بتایا تھا کہ 2022 میں سعودی عرب نے 147 افراد کو موت کی سزا دی، جو 2021 کے 69 کے اعداوشمار سے دوگنا ہے۔
سعودی عرب میں موت کی سزا سے نجات
ریپریو اور یوروپی سعودی انسانی حقوق تنظیم کی طرف سے شائع ایک رپورٹ کے مطابق، شہزادہ محمد بن سلمان کے ذریعہ سال 2015 میں ملک کے حقیقی حکمراں کے طور پر اقتدار سنبھالنے کے بعد سے اب تک ایک ہزار سے زیادہ افراد کو سزائے موت دی جا چکی ہے۔ حالانکہ مارچ 2022 میں شہزادہ محمد بن سلمان نے دی اٹلانٹک میگزین کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ سعودی عرب میں موت کی سزا سے چھٹکارا مل گیا ہے۔ یہ صرف قتل کے معاملوں پرنافذ ہوتا ہے، یا جب کوئی کئی لوگوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالتا ہے یا کوشش کرتا ہے۔