مصنف- رنجیتا بسواس
کسی متحرک پہل کی ایک تصویر ذہن میں لائیں جہاں نوجوان مثبت طور پر اختراعی تبدیلی لانے اور پائیدار مستقبل کی تعمیر کے لیے خیالات میں قائدانہ کردار ادا کررہے ہوں ۔ ینگ اَن ہرڈ وائسیز فار ایکشن (یووا) موسمیاتی تبدیلی سے متعلق ایسا ہی ایک منصوبہ ہے جس میں دو انتہائی اہم جنوبی ایشیائی حیاتیاتی علاقوں، سندربن (ہندوستان۔بنگلہ دیش) کا بین سرحدی ڈیلٹا نظام اور مانس (ہندوستان۔بھوٹان) کا بین سرحدی دریاؤں کا نظام، میں آبی ذخائراورمنسلک ماحولیاتی نظام سے متعلق آب و ہوا کی کارروائی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔
نالج پارٹنرکے طورپرغیر منافع بخش تنظیم، برج (بی آر آئی ڈی جی ای )کے تعاون اور کولکاتہ کےامریکی قونصل خانہ کی مدد سے غیرمنافع بخش تنظیم ’پروڈیگلز ہوم ‘کے ذریعہ نافذ یووا پروجیکٹ کا مقصدہندوستان، بھوٹان اور بنگلہ دیش میں نوجوانوں تک رسائی اور رہنمائی کے پروگرام شروع کرنا تھا۔
اس منصوبے کو تیارکرنے کا خیال یہ تھا کہ شہری اور دیہی طبقات کے زندگی کے تجربات کو نوجوانوں کی منفرد سوچ کے ساتھ یکجا کیا جائے۔ خیال یہ بھی تھا کہ وہ مل کر مہم اور اس کو فروغ دینے سے متعلق اشیاء تیار کریں گے اور ساتھ ہی ان دو حیاتیاتی شعبوں میں مداخلت کے لیے ٹھوس خیالات کی ترویج کریں گے۔
یووا پروجیکٹ کے ریسرچ ڈائریکٹر کے طور پر خدمات انجام دینے والے برج کے ڈائرکٹر پرتھوی راج ناتھ کہتے ہیں ’’نوجوان تبدیلی کا محرّک ہیں اس کے علاوہ انہیں گذشتہ نسلوں کے اعمال کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مختلف مسائل کے ساتھ ساتھ اس دنیا کی وراثت کے وارث بھی ہیں ۔‘‘
وہ مزید کہتے ہیں ’’ہمیں اکثر شہری علاقوں، وسیع النظر شہروں سے زیادہ نوجوان ملتے ہیں جوآب و ہوا کی تبدیلی اور اقدامات کی ضرورت کے بارے میں غوروفکر کرتےہیں ۔ لیکن حاشیے پر رہنے والوں سے اس سے متعلق خیالات، آوازیں اور نقطہ نظر اکثر کم ہی سننے کو ملتے ہیں۔ شرکا ءنے جو خیالات اور حل پیش کیے وہ حقیقی زندگی کے تجربات پر مبنی تھے۔‘‘
اس منصوبے کا آغاز۲۰۲۳ء میں بنگلہ دیش، بھوٹان اور ہندوستان کے نوجوانوں کے خیالات کو جاننے کے لیے کیا گیا تھا۔ ابتدائی طور پر تینوں ممالک میں منعقدہ اتالیقی اجلاس اور ورکشاپ میں حصہ لینے کے لیے ۶۰ سے زائد تجاویز میں سے ۴۱ کو منتخب کیا گیا تھا۔ ان مشاورتی سیشنز کا مقصد نوجوانوں کو اپنے خیالات کو ماہرین کے سامنے پیش کرنے اورمشترک کرنے اور بہتری کے لیے رہنمائی اور ضروری اجزا ءحاصل کرنے میں مدد کرنا تھا۔ کولکاتہ کے بین الاقوامی کتاب میلے میں جنوری ۲۰۲۴ء میں کولکاتہ کے امریکی قونصل خانہ کی جانب سے منعقد ہونے والے آخری کونکلیو میں سرپرستوں کی ایک فیصلہ ساز کمیٹی نے شرکت کی جس نے بہترین خیالات کا انتخاب کیا۔
ناتھ کو لگتا ہے کہ مشاورتی پروگرام نے شرکا ءکو اپنے خیالات کو مستحکم کرنے میں مدد کی۔ وہ کہتے ہیں ’’ماحولیاتی کارکنوں اور پالیسی پر اثر انداز ہونے والوں، ترقیاتی شراکت داروں، ماحولیاتی محققوں اور رہنماؤں، اسٹارٹ اپس اور نجی شعبے کے نمائندوں جیسے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے ماہروں اور سرپرستوں نے بہترین خیالات کا انتخاب کیا۔‘‘ آگے چل کر ان خیالات کو پائلٹ منصوبوں کے لیے مزید رہنمائی اور مواقع ملیں گے۔ فائنل میں پہنچنے والوں میں سے شربانی بیرا اور تپس سردار تھے اوردونوں ہی کا تعلق مغربی بنگال سے تھا۔
پانی کے بحران سے نمٹنا
’’جیبان مریتا : اے کمپلٹ واٹر سولیوشن‘‘ بیرا کی ذہنی کاوش ہے۔ وہ سندربن کے ایک علاقے ساگردویپ کے نرہری پور گاؤں میں رہتی ہیں اور نیتاجی سبھاش اوپن یونیورسٹی سے سوشل سائنس میں ماسٹر ڈگری حاصل کر رہی ہیں۔ بیرا بتاتی ہیں ’’ہم پانی سے گھرے ہوئے رہتے ہیں۔ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے اکثر آنے والے سمندری طوفانوں نے ہمارے علاقے کو نمکین پانی سے بھرنے کے ساتھ ساتھ پینے کے پانی کی کمی سے بھی دو چار کردیا ہے۔ ‘‘ ۲۰۲۱ء میں سمندری طوفان یاس خاص طور پر تباہ کن تھا۔ وہ کہتی ہیں ’’لہذا اس لیے ہماری تجویز یہ تھی کہ انسانی استعمال کے لیے بارش کا پانی جمع کیا جائے۔‘‘
بیرا کی ٹیم میں دو دیگر ارکان ہیں۔ وہ یووا کے خیالات کے اشتراک اور اس کے بعد کے مشاورتی پروگراموں کو نہایت اہم خیال کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں’’سرمایہ کاری کے ساتھ ہم اپنے خیالات کو طویل مدت کے لیے ایک پائیدار کاروباری نمونے میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ اس سے پہلے ہمیں اس کا علم نہیں تھا۔‘‘ بیرا کے ماڈل میں گھروں کو پینے کے پانی کے لیے بارش کے پانی کو صاف کرنے کے لیے رقم ادا کرنے کے ساتھ ایک بنیادی ڈھانچہ فراہم کرنا شامل ہے۔
پرانے طریقوں کو بحال کرنا
تپس سردار سبزیوں اور پھلوں کی کاشت کے روایتی ماحول دوست طریقوں کو بحال کرنے کے حق میں ہیں۔ ’’سُوجل: کلائمیٹ اسمارٹ ایگریکلچر‘‘کے عنوان سے ان کے پروجیکٹ میں مقامی طور پر دستیاب کھاد اور پانی جمع کرنے کے طریقوں کو دوبارہ متعارف کرانے پر زور دیا گیا ہے جن پر کسان نامیاتی کھیتی کے طریقے کے طور پر صدیوں سے عمل پیرا ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’’بہتر پیداوار حاصل کرنے کی امید میں حشرات کُش دواؤں کا زیادہ استعمال ہماری مٹی کے معیار کو خراب کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے روایتی تالابوں کا پانی بھی کھیتی کے لیے ناقابل استعمال ہوتا جا رہا ہے۔‘‘ وہ مزید بتاتے ہیں کہ تجارتی کھاد کی زیادہ لاگت نے بہت سارے کسانوں کو زراعت سے محروم کر دیا ہے۔
ان دشواریوں کو دیکھتے ہوئے سوشل ورک میں ماسٹر کی ڈگری رکھنے والے اور کولکاتہ سے تقریباً ۱۲۰ کلومیٹر دورکُلتلی میں رہنے والے تپس سردارنے اپنی ہی زمین پرگذشتہ نسلوں کے کھیتی کے طریقوں کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ان کی کوششوں کے مثبت نتائج برآمد ہوئے جس کی وجہ سے انہوں نے مقامی کسانوں کو اپنی مثال پر عمل کرنے پر آمادہ کیا۔وہ بتاتے ہیں ’’ہم ’ٹرو ٹو ٹائپ‘سبزیوں کے بیجوں اور قدرتی کھادوں جیسے گائے کے گوبر اور ورمی کمپوسٹ کے ساتھ ایک پیکج کی پیش کش کرتے ہیں۔ ہم پانی کی بچت کے لیے باندھ بھی بناتے ہیں تاکہ خشک سالی کے دوران پانی دستیاب ہو۔‘‘ فی الحال تقریباً ۲۵۰ کسان اس پہل پر ان کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔
سردار بتاتے ہیں ’’یووا پروجیکٹ کی طرف سے فراہم کی جانے والی ورکشاپس اور رہنمائی نے مجھے آمدنی پیدا کرنے کے لیے اپنے خیالات کو کاروباری نمونے میں تبدیل کرنے میں مدد کی ہے۔اس سے مجھ میں یہ اعتماد بھی پیدا ہوا ہے کہ میں صحیح راستے پر چل رہا ہوں۔‘‘
بشکریہ سہ ماہی اسپَین میگزین، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی
-بھارت ایکسپریس
سردی کی لہر کی وجہ سے دہلی پر دھند کی ایک تہہ چھائی ہوئی ہے۔…
ڈلیوال کا معائنہ کرنے والے ایک ڈاکٹر نے صحافیوں کو بتایاکہ ان کے ہاتھ پاؤں…
سنبھل میں یو پی پی سی ایل کے سب ڈویژنل افسر سنتوش ترپاٹھی نے کہاکہ…
حادثے کے فوری بعد پولیس نے ڈمپر ڈرائیور کو گرفتار کر لیاہے۔ پولیس کے مطابق…
یہ انکاؤنٹر پیلی بھیت کے پورن پور تھانہ علاقے میں ہواہے۔پولیس کو اطلاع ملنے کے…
اللو ارجن کے والد نے کہا کہ فی الحال ہمارے لیے کسی بھی چیز پر…