-بھارت ایکسپریس
نئی دہلی: اترپردیش میں رام پورکے بعد مسلم اکثریتی مرادآباد کی کندرکی سیٹ پربی جے پی ’کمل‘ کھلانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ 65 فیصد مسلم آبادی والی کندرکی اسمبلی سیٹ پربی جے پی کے امیدوارٹھاکررام ویر سنگھ کا ’بھائی جان‘ ماڈل میں اترکرانتخابی تشہیرکرنے کا داؤں کافی ہٹ رہا ہے اورسماجوادی پارٹی کوبڑا نقصان ہوا ہے۔ کندرکی سیٹ پررام ویرسنگھ بڑے فرق سے جیت درج کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اس طرح سے بی جے پی نے 31 سال کے بعد کندرکی سیٹ پر’کمل‘ کھلایا ہے۔ بی جے پی امیدواررام ویرسنگھ نے ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کئے ہیں اورسوا لاکھ سے زیادہ ووٹوں سے بڑی جیت حاصل کرتے ہوئے نظرآرہے ہیں۔
وہیں سماجودی پارٹی کے امیدوارحاجی محمد رضوان کی کارکردگی بہت خراب رہی ہے۔ وہ محض 20 ہزارووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ آپ کوبتادیں کہ 2022 میں ایم ایل اے منتخب ہونے کے بعد ضیاء الرحمٰن برق کے استعفیٰ کے دینے کے بعد یہ سیٹ خالی تھی۔ دراصل، سابق رکن پارلیمنٹ اورمرحوم لیڈرشفیق الرحمٰن کے انتقال کے بعد سماجوادی پارٹی نے 2024 کے لوک سبھا الیکشن میں ضیاء الرحمٰن کوامیدواربنایا تھا۔ اپنے دادا شفیق الرحمٰن برق کی وراثت کوسنبھالنے کے لئے وہ جیت حاصل کرکے پارلیمنٹ پہنچ گئے اورپھرکندرکی سیٹ سے استعفیٰ دے دیا تھا، جس کے بعد ضمنی اسمبلی الیکشن ہوا اوریہ سیٹ سماجوادی پارٹی سے بی جے پی نے چھین لی۔
کندرکی میں 65 فیصد مسلم آبادی
کندرکی میں تقریباً 65 فیصد مسلم رائے دہندگان ہونے کے سبب سماجوادی پارٹی یہاں اپنی جیت طے مان کرچل رہی تھی۔ مسلم ووٹوں کے سیاسی حالات کے پیش نظرسماجوادی پارٹی چاربارکندرکی سیٹ پراپنا ایم ایل اے بنانے میں کامیاب رہی ہے۔ بی جے پی اپنی سیاسی تاریخ میں صرف 1993 کے ضمنی الیکشن میں کندرکی سیٹ جیتنے میں کامیاب رہی تھی۔ مسلم اکثریتی حلقہ ہونے کے سبب بی جے پی کے لئے سب سے مشکل بھری سیٹ نظرآرہی تھی، لیکن ٹھاکررام ویرسنگھ کا ’بھائی جان‘ ماڈل میں تشہیرکرنے کا اندازمسلمانوں کوخوب پسند آیا اورسماجوادی پارٹی کی ساری امیدوں پرپانی پھرگیا۔ حالانکہ سماجوادی پارٹی کے امیدوارحاجی محمد رضوان نے ووٹنگ کے دن پولیس انتظامیہ پربڑا الزام لگاتے ہوئے الیکشن منسوخ کئے جانے کا مطالبہ کیا تھا۔
کندرکی میں کون کون تھے انتخابی میدان میں؟
کندرکی سیٹ پربی جے پی نے رام ویرسنگھ، سماجوادی پارٹی نے سابق رکن اسمبلی حاجی رضوان کومیدان میں اتارا تھا۔ بی ایس پی سے رفعت اللہ، آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین سے محمد وارث خان الیکشن لڑرہے تھے۔ اس طرح سے کندرکی سیٹ پر 12 امیدواروں میں ٹھاکررام ویرسنگھ کوچھوڑکرسبھی مسلم ہیں۔ مسلم اکثریتی سیٹ ہونے کے سبب کندرکی جیتنا بی جے پی کے لئے لوہے کے چنے چبانے جیسا تھا۔ بی جے پی کے لئے یہی صورتحال رام پورمیں بھی تھی، جہاں پر55 فیصد رائے دہندگان مسلم تھے۔ بی جے پی نے رام پورضمنی الیکشن میں آکاش سکسینہ کو اتارا اور مسلمانوں کا ایک بڑا ووٹ بینک حاصل کرنے میں وہ کامیاب رہے تھے۔ اسی اسٹائل میں بی جے پی نے کندرکی سیٹ پربھی جیت کا پیمانہ تیارکیا ہے، جس کے لئے ہی بی جے پی امیدواررام ویرسنگھ مسلم رنگ میں نظرآرہے تھے۔
اذان کے دوران تقریربند کردیتے تھے ٹھاکررام ویرسنگھ
بی جے پی امیدواررام ویرسنگھ نے سرپرجالی دارگول نمازوالی ٹوپی اورگلے میں سعودی اسٹائل کی رومال ڈال کر’بھائی جان‘ اندازمیں تشہیرکرنے کا داؤں چلا۔ رام ویرسنگھ مسلم اکثریتی علاقے میں صرف بی جے پی کے لئے ووٹ نہیں مانگ رہے تھے بلکہ قرآن مقدس کی آیت پڑھ کراپنی تقریرکا آغاز کرتے تھے۔ اسلامی اندازمیں نظرآنے والے رام ویرسنگھ کوجیسے ہی اذان کی آوازآتی تھی تو اپنی تقریرروک دیتے تھے اورخاموش کھڑے رہتے تھے۔ اذان ختم ہونے کے بعد پھردوبارہ سے اپنی تقریرشروع کرتے تھے۔
بی جے پی کی جیت کے پیچھے کنورباسط علی
کندرکی میں بھلے ہی رام ویر سنگھ رکن اسمبلی منتخب ہونے میں کامیاب ہوئے ہوں، لیکن بی جے پی کی جیت کی اصل عبارت لکھنے کام اقلیتی مورچہ کے ریاستی صدرکنورباسط علی نے کیا۔ انہوں نے شروع سے ہی مسلم علاقوں پر خاص توجہ مرکوز کررکھی تھی۔ باسط علی کندرکی سیٹ پر مسلمانوں کو اللہ کی قسم کا حوالہ دے کرووٹ دینے کا وعدہ لے رہے تھے۔ بی جے پی نے اس الیکشن میں ترک مسلمان بنام راجپوت مسلمان ماحول بنانے کی کوشش کی، جس میں کافی حدتک کامیابی بھی ملی۔ کنور باسط علی کی کوششوں سے رام ویر سنگھ مسلمانوں کے درمیان اپنی بہترین پکڑ بنانے میں کامیاب ہوئے۔
1993 کے بعد ملی بی جے پی کو جیت
کندرکی سیٹ پر سال 1993 میں آخری بار بی جے پی نے جیت درج کی تھی۔ اس وقت بی جے پی لیڈر چندروجے سنگھ جیتے تھے۔ اس کے بعد سے بی جے پی اس سیٹ پر کبھی جیت حاصل نہیں کرسکی تھی۔ ایسے میں اس بار کندرکی سیٹ پرجیت کے لئے بی جے پی کے ریاستی صدر بھوپیندر چودھری نے کمان سنبھال رکھی تھی۔ کنور باسط علی اوررام ویرسنگھ کی سیاسی جوڑی ہٹ رہی ہے۔ حاجی محمد رضوان کی مسلمانوں کے درمیان مضبوط پکڑنہ ہونا بھی بی جے پی کے لئے مفید رہا۔ اتنا ہی نہیں ان کے مسلم ترک ذات سے ہونے کے سبب دوسری مسلم برادریاں بی جے پی کے حق میں متحد ہوگئی تھیں۔ ایسے میں بی جے پی نے 65 فیصد مسلمانوں کے درمیان کمل کھلانے میں کامیاب ہوگئی۔
-بھارت ایکسپریس
مرکزی وزیرراجیو رنجن (للن سنگھ) نے کہا ہے کہ این ڈی اے کے ساتھ الائنس…
سابق ہوم سکریٹری اجے کمار بھلا کو منی پور کا گورنر بنایا گیا ہے۔ عارف…
جنوبی افریقہ کے صوبے گوتینگ میں واقع Mponeg سونے کی کان دنیا کی سب سے…
کانگریس کی مرکزی انتخابی کمیٹی (CEC) نے منگل کو دہلی اسمبلی انتخابات کے لیے امیدواروں…
سال 2024 ختم ہونے کو ہے۔ اس عرصے میں لوگوں نے سال بھر بڑے پیمانے…
جموں و کشمیر کے پونچھ ضلع کے بلنوئی سیکٹر میں منگل (24 دسمبر 2024) کو…