قومی

All India Muslim Personal Law Board on Uniform Civil Code: مسلم پرسنل لا بورڈ نے مسترد کیا یونیفارم سول کوڈ، کہا-ملک میں گھولا جا رہا ہے نفرت کا زہر

Uniform Civil Code: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اتوارکے روزکہا کہ مسلمان ہونے کا مطلب اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کرنا ہے، اس لئے ہمیں پوری طرح شریعت پر عمل کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بورڈ نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ ملک کے آئین میں ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہے، اس لئے وہ عام شہریوں کے مذہبی آزادی کا احترام کرتے ہوئے یونیفارم سول کوڈ (یکساں سول کوڈ) کا ارادہ چھوڑ دے۔

قابل ذکر ہے کہ اتوار (5 فروری) کو لکھنؤ واقع ندوۃ العلماء میں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا سید رابع حسنی ندوی کی صدارت میں بورڈ کی میٹنگ منعقد کی گئی۔ جس میں مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس میٹنگ میں کئی اہم تجاویز بھی منظور کی گئیں۔

بورڈ نے مسلمانوں کو دیا یہ پیغام

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی میٹنگ کے بعد بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا، ‘بورڈ کی یہ میٹنگ مسلمانوں کو یہ یاد دلاتی ہے کہ مسلمان کا مطلب اپنے آپ کو اللہ کے حوالے کرنا ہے، اس لئے ہمیں پوری طرح شریعت پر عمل کرنا ہے’۔

ملک میں پھیلایا جا رہا ہے نفرت کا زہر

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا کہنا ہے کہ ملک میں نفرت کا زہر پھیلایا جا رہا ہے اور اسے سیاسی لڑائی کا ہتھیار بنایا جا رہا ہے، یہ ملک کے لئے نقصاندہ ہے۔ اگر بھائی چارہ ختم ہوگیا تو ملک کا اتحاد پار ہوجائے گا۔ بورڈ نے کہا، اگر نفرت کے زہر کو نہیں روکا گیا تو یہ آگ جوالہ مکھی بن جائے گی اور ملک کی ت ہذیب، اس کی نیک نامی، اس کی ترقی اور اس کے اخلاقیات کو جلاکر رکھ دے گی۔

 

آئین میں مذہب پر عمل کرنے کی آزادی

بورڈ نے اپنی تجویز میں یہ بھی کہا، ‘ملک کے آئین میں بنیادی حقوق میں ہر شہری کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دی گئی ہے، اس میں پرسنل لا شامل ہے۔ اس لئے حکومت سے اپیل ہے کہ وہ عام شہریوں کی مذہبی آزادی کا بھی احترام کرے اور یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ غیرجمہوری ہوگا’۔

یہ بھی پڑھیں:   CM Yogi Adityanath on Muslim Women: یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا- ’اگر ہندو لڑکیاں محفوظ ہیں تو مسلم لڑکیاں بھی محفوظ ہیں‘

میٹنگ کے بعد میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ ہمارے اس ملک کے لئے جس میں مختلف مذاہب اور ثقافت سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں ایسے ملک میں کامن سول کوڈ کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر طبقے کواپنی شناخت کے ساتھ ملک میں زندگی گزارنے کی آزادی ہونی چاہئے۔ انہوں نے آسام میں جاری کم عمری کی شادی کے خلاف چلائی جا رہی مہم پر تنقید کی اورکمرعمری کی شادی (چائلڈ میریج) کے خلاف گرفتاریوں پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ عرصہ پہلے شادی ہوئی اوراب کارروائی نا مناسب ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ سپریم کورٹ میں پہلے سے موجود ہے اس لئے ایسی کارروائی سے آسام حکومت کو بچنا چاہئے۔

-بھارت ایکسپریس
Nisar Ahmad

Recent Posts

CJI DY Chandrachud: سی جے آئی کے والد کو ڈر تھا کہ کہیں ان کا بیٹا طبلہ بجانے والا بن جائے، جانئے چندرچوڑ کی دلچسپ کہانی

چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ والدین کے اصرار پر موسیقی سیکھنا شروع کی۔ انہوں…

2 hours ago

Robot Committed Suicide: زیادہ کام سے تنگ ہوکر روبوٹ نے کرلی خودکشی،عالمی سطح پر پہلی روبوٹ خودکشی ریکارڈ

یہ واقعہ 29 جون کی سہ پہر پیش آیا۔ ’روبوٹ سپروائزر‘ سٹی کونسل کی عمارت…

2 hours ago